لوک سبھا انتخابات 1952 سے 2019 کے درمیان امیدواروں کی تعداد میں 4 گنا اضافہ

   

امجد خان
ہمارے ملک میں جلد ہی لوک سبھا انتخابات کا انعقاد عمل میں آئے گا ۔ جہاں تک لوک سبھا یا عام انتخابات کا سوال ہے اگر دیکھا جائے تو 1952 اور 2019 کے درمیان ان انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تعداد میں 4 گنا اصافہ دیکھا گیا ۔ آپ کو بتادیں کہ 1952 کے لوک سبھا انتخابات میں 1874 امیدواروں نے مقابلہ کیا تھا جن کی تعداد بڑھ کر 2019 کے عام انتخابات میں 8039 ہوگئی ۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق اسی مدت کے دوران ہر پارلیمانی حلقہ میں امیدواروں کی اوسط تعداد 4.67 سے بڑھ کر 14.8 ہوگئی ۔ اب اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ 2019 کے عام ا نتخابات میں 8039 امیدوار میدان میں تھے 2024 کے عام انتخابات میں کتنے امیدوار انتخابی میدان میں اُتریں گے ؟ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 1952 میں پہلے لوک سبھا انتخابات منعقد ہوئے تھے اور اُس وقت ہر لوک سبھا حلقہ میں تین تا پانچ امیدوار مقابلہ میں ہوا کرتے تھے جس کا سلسلہ 1977 میں چھٹویں لوک سبھا انتخابات تک جاری رہا ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 2019 کے عام انتخابات میں ہر پارلیمانی حلقہ میں اوسطً 14.8 امیدواروں نے مقابلہ کیا ایک غیر منفعت بخش تنظیم پی آر ایس لیجسلیٹو ریسرچ کے مطابق 2019 کے عام انتخابات میں 542 پارلیمانی حلقوںسے 8039 امیدواروں نے مقابلہ کیا اور سب سے اہم بات یہ رہی کہ ملک کی دیگر ریاستوں کی بہ نسبت ریاست کے تلنگانہ ہر پارلیمانی حلقہ میں سب سے زیادہ امیدواروں نے مقابلہ کیا ۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ پارلیمانی حلقہ نظام آباد سے 185 امیدواروں نے مقابلہ کیا جبکہ ریاست کے دوسرے پارلیمانی حلقوں میں اوسطً 16.1 امیدوار مقابلہ میں دیکھے گئے ۔ تلنگانہ کے بعد آزاد امیدواروں کی سب سے زیادہ تعداد جنوبی ہند کی ریاست ٹاملناڈو میں دیکھی گئی ۔ ٹاملناڈو کے ہر حلقہ میں جو امیدوار میدان میں تھے ان میں دو تہائی اکثریت آزاد امیدواروں کی رہی۔ نظام آباد کے بعد کرناٹک کے حلقہ بیلگام میں سب سے زیادہ امیدوار دیکھے گئے ۔ جنوبی ریاستوں کے ایسے 5 حلقے جہاں سب سے زیادہ امیدوار میدان میں تھے ان کا تعلق تلنگانہ ، کرناٹک اور ٹاملناڈو سے ہے ۔ بی جے پی اور کانگریس نے بالترتیب 435 اور 420 نشستوں پر مقابلہ کیا اور 373 حلقوں میں ان کا راست مقابلہ رہا ۔ بی جے پی 2019 کے عام انتخابات میں تیسری ایسی جماعت رہی جس نے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو میدان میں اُتارا جبکہ سات قومی جماعتوں نے فی پارلیمانی حلقہ اوسطً 269 امیدوار مقابلہ میں اتارے تھے ۔ ملک کی پانچ بڑی ریاستوں میں مغربی بنگال میں قومی جماعتوں کے سب سے زیادہ امیدوار تھے ۔ ان جماعتوں نے ایک حلقہ میں 4.6 فیصد امیدواروں کو انتخابی مقابلہ میں اُتارا تھا جبکہ مسلمہ علاقائی پارٹیوں نے فی حلقہ 1.53 امیدوار میدان میں اتارے ( بہار میں 6 ریاستی پارٹیوں نے ) اور ( ٹاملناڈو میں 8 ریاستی پارٹیوں نے ) اپنے امیدوار کھڑا کئے تھے ۔ مذکورہ ریاستوں میں ریاستی جماعتوں نے بالترتیب 1.2 اور 1.3 امیدواروں کو مقابلہ میں اُتارا ۔ آپ کو بتادیں کہ ہمارے ملک میں پانچ ایسی بڑی ریاستیں ہیں جہاں پارلیمانی حلقوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے ان میں اُترپردیش ( 80 سیٹس ) مہاراشٹرا ( 48 نشستیں ) مغربی بنگال ( 42 نشستیں ) بہار ( 40 نشستیں ) اور ٹاملناڈو ( 39 پارلیمانی حلقہ ) شامل ہیں ۔ ان پانچ ریاستوں میں پارلیمانی نشستوں کی مجموعی تعداد 249 جو لوک سبھا نشستوں کا 45 فیصد حصہ بنتا ہے اور گذرتے وقت کے ساتھ ان ریاستوں کے پارلیمانی حلقوں میں امیدواروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق 1952 میں 489 نشستوں کیلئے 1874 امیدواروں نے مقابلہ کیا تھا ۔ اس طرح ہر حلقہ میں اوسطً 3.83 امیدوار مقابلہ میں تھے اس کے برعکس 1971 کے انتخابات میں امیدواروں کی تعداد بڑھ کر 2784 ہوگئی ۔ فی حلقہ اوسطً 5.37 امیدوار مقابلہ میں تھے ۔ آپ کو بتادیں کہ 1977 میں 2439 امیدواروں نے مقابلہ کیا اس طرح ایک حلقہ میں اوسطً 4.5 فیصد امیدواروں نے مقابلہ کیا ۔ آپ کو بتادیں کہ 1980 میں امیدواروں کی تعداد 4629 ہوگئی اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر حلقہ میں اوسطً 8.54 امیدواروں نے مقابلہ کیا دوسری طرف 1984-85 کے آٹھویں عام انتخابات میں امیدواروں کی تعداد بڑھ کر 5492 ہوگئی اس کا مطلب ہر حلقہ میں اوسطً 10:13 امیدوار میدان میں تھے ۔ جبکہ 1989 کے عام انتخابات میں 6160 امیدوار میدان میں تھے یعنی فی حلقہ اوسطً 11.34 امیدواروں نے مقابلہ کیا ۔ 1991 – 92 میں دسویں لوک سبھا انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا 8668 امیدواروں نے 543 حلقوں میں مقابلہ کیا ہر حلقہ میں اوسطً 15.96 امیدوار میدان میں تھے ۔ 11 ویں لوک سبھا انتخابات میں فی حلقہ اوسطً امیدواروں کی تعداد بڑھ کر 25.69 ہوگئی جو غیر معمولی تبدیلی تھی اس وقت 543 پارلیمانی حلقوں کیلئے 13952 ریکارڈ تعداد میں امیدواروں نے مقابلہ کیا اس طرح فی حلقہ اوسطً 25.69 امیدواروں نے مقابلہ کیا ۔ 1991 میں فی حلقہ امیدواروں کی اوسطً تعداد 16.38 تھی ۔ امیدواروں کی بڑھتی تعداد دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے امیدواروں کی جانب سے بطور ضمانت جمع کرواتی جانے والی رقم میں اضافہ کردیا اس سے پہلے صرف 500 روپئے بطور ضمانت رقم ڈپازٹ کروانی پڑتی تھی الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اسے بڑھاکر 1000 روپئے کردیا جس سے امیدواروں کی تعداد کم کرنے میں مدد ملی ۔ چنانچہ 1998 کے لوک سبھا انتخابات میں فی حلقہ اوسطً 8.75 امیدوار میدان میں تھے اور پھر ایک طویل مدت کے بعد پارلیمانی حلقوں میں امیدواروں کی تعداد 5000 سے کم 4750 ہوگئی امیدواروں کی تعداد میں 1999 کے عام انتخابات میں 4648 فی حلقہ اوسطً 8.56 امیدوار ہوگئے ۔ 2004 کے عام انتخابات میں مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی تعداد 5000 سے تجاوز کرگئی اس وقت 543 حلقوں کیلئے 5435 امیدواروں نے مقابلہ کیا اس طرح فی حلقہ امیدواروں کی اوسطً تعداد 10 سے کچھ زیادہ رہی ۔ 2009 کے عام انتخابات میں 543 حلقوں میں جملہ 8070 امیدواروں نے مقابلہ کیا اس طرح فی حلقہ اوسطً امیدواروں کی تعداد 14.86 ہوگئی ۔ سرکاری دنیا میں بتایا گیا کہ جملہ 8251 امیدواروں نے 2014 کے عام انتخابات میں مقابلہ کیا ۔