ماہر امراض چشم ڈاکٹر شیام سندر پر ساد معالج بصارت بھی اور اہل بصیرت بھی

   

محبوب اصغر
اردو زبان و ادب اور تہذیب سے جس کا قلبی رشتہ استوار ہوتا ہے وہ یقینا نہ بے بصر ہوتا ہے نہ ہی بے بصیر بلکہ بصیرت اور بصارت کی تیزی اسے ایک دانشور بنادیتی ہے۔ چنانچہ اردو زبان و ادب اور تہذیب سے والہانہ لگاو کے سبب ڈاکٹر شیام سندر میں شئے لطیف کی زیادتی عام انسانوں سے بہت زیادہ تھی۔ وہ ایک روشن خیال مفکر تھے۔ ان کے تمام ہمعصر اس دارفانی سے کوچ کر گئے تھے۔ ادب اور طب کے میدانوں کی بڑی اور عظیم شخصیتوں کو کھونے کے بعد وہ تنہا ہوگئے تھے۔ لے دے کے ایک مجتبیٰ حسین ہی رہ گئے تھے جن کے ساتھ وہ اپنا دکھ درد بانٹتے تھے۔ ان کی دوستی کا آغاز مریض اور معالج کے بطور ہوا تھا مگر وہ مجتبیٰ حسین کی تحریروں کے دلدادہ تھے۔ عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر جیسی شخصیات سے بھی وہ انسپائر تھے۔ روزنامہ سیاست کے قاری تھے۔ اردو نوشت خواند کے بھی ماہر تھے۔ 27 مئی کو مجتبیٰ نے آخری سانس لی تھی اور اس وقت ڈاکٹر شیام سندر۔ آدتیہ دواخانہ میں زندگی اور موت سے لڑرہے تھے۔ میں نے انتقال کی خبر دینی چاہی تو ان کے بھتیجے نے فون اٹھایا۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت سے متعلق تفصیلات فراہم کیں اور تشویش کا اظہار کیا تھا۔ مجتبیٰ حسین کا جسد خاکی سرد پڑ چکا تھا اور شیام سندر ٹوٹتی بکھرتی سانسوں کے درمیان تھے اور میں ایک بہت ہی نازک وقت سے گذررہا تھا۔ ایک بزرگ کو کھوچکا تھا اور ایک بزرگ کی زندگی کا تار نفس غیر یقینی سا ہو چلا تھا۔
ڈاکٹر شیام سندر کی زندگی ایک سچے اور کھرے انسان کی زندگی تھیں۔ ان کے علم و دانش کی کرنیں اقطاع عالم پر چھائی ہوئی تھیں۔ قبل ازیں ڈاکٹر صاحب کی زندگی بڑی ہنگامہ خیز رہی۔ انہوں نے تعلیمی، مذہبی، ادبی، تحقیقی اور طبی قسم کے علمی اور قومی مشاغل میں حصہ لیا تھا۔ وہ اپنے پیشے کے تئیں بڑے باکمال تھے۔ انفرادی طور پر بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی ذات کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ وہ باہمی اتحاد کے قائل تھے۔ انہوں نے تمام اقوام کے لوگوں سے محبت کی اور سب کو آپس میں شیر و شکر کی طرح دیکھنے کے متمنی تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ باہمی اتحاد اور باہمی ہمدردی ہی سے ملک کی ترقی اور بہبود ممکن ہے۔ ان کا ایقان تھا کہ نفاق، ضد اور ایک دوسرے کی بدخواہی سے فاصلے بڑھتے ہیں جو بالآخر تباہی تک لے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شیام سندر 14 ستمبر 1937 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام نریندر پرساد تھا۔ جامعہ عثمانیہ سے 1961 میں ایم بی بی ایس کی سند حاصل کی۔ 1970 میں
Ophthalmology
میں برطانیہ سے
FRCS
کیا تھا۔

امراض چشم سے متعلق دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں لکچر دیئے اور حیدرآباد دکن کا نام سربلند کیا۔ ہیوسٹن، نیویارک، شکاگو، برطانیہ، نیدر لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، کراچی، اور دوسرے ممالک میں دیئے گئے ان کے لکچر کئی مغربی ممالک کے جرنلس میں شائع ہوئے اور ان کے معلومات آفرین لکچرز کی خوب پذیرائی ہوئی۔ 1968 سے 1969 برطانیہ، 1970 تا 1973 وکٹوریہ کوئین، ہاسپٹل
(Sussex) 1974
تا 2002 سادھو رام آئی ہاسپٹل 1975 تا 2006 سروجنی دیوی آئی ہاسپٹل کے علاوہ کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ کی مختلف جامعات میں امراض چشم سے متعلق درس و تدریس کا وسیع تجربہ بھی انہیں حاصل تھا۔ انہیں ملنے والے ایوارڈز اور اعزازات کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔ ڈاکٹر صاحب عثمانیہ یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ شاعری، موسیقی اور سفر سے ان کو بڑی دلچسپی رہی۔

مجتبیٰ حسین نے 2018 میں ایک مشاورتی اجلاس طلب کیا تھا اور کہا تھا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے زیر اہتمام ڈاکٹر شیام سندر کے ساتھ ایک شام منائی جائیگی، سب نے اتفاق کیا۔ مجتبیٰ حسین بیگ احساس اور میں ڈاکٹر صاحب کے گھر پہونچے۔ پروگرام ان کے گوش گذار کیا۔ انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی۔ مگر مجتبیٰ صاحب کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ ویسے بھی مجتبیٰ صاحب اپنی بات منوانے میں مہارت رکھتے تھے۔ بیگ احساس نے صدارت کی تھی۔ مجتبیٰ حسین نے ایک بہت ہی عمدہ مضمون سنایا تھا۔ اردو ہال تنگ دامنی کا شکوہ کررہا تھا۔ خیر سے کچھ اہل اردو آہی گئے تھے مگر ڈاکٹر صاحب کے افراد خاندان کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ جو یہ ثابت کررہی تھی کہ وہ بیک وقت ادبی حلقوں میں بھی اور اپنے خاندان میں بھی ممتاز ہیں۔ ڈاکٹر شیام سندر (خوبصورت حسین و جمیل) اور پرساد (تحفہ) ہی تھے۔ اہل اردو کے لئے بھی اور اپنے خاندان والوں کے لئے بھی۔ اکثر سیاست کے حوالے سے عابد علی خاں اور محبوب حسین جگر کو یاد کیا کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ سیاست ایک اخبار نہیں تحریک ہے۔ صحافتی خدمات کے علاوہ ادبی اور فلاحی خدمات کا ایک زرین باب ہے۔ان کے گھر میں داخل ہوتے ہی دیوار پر چسپاں اقبالؔ کا شعر دکھائی دیتا ہے۔
بتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
پھر شجیعؔ کے اس شعر پر نظر پڑتی ہے۔
زباں بندی سے گھبراکر کسی کا دم نہ گھٹ جائے
یہی کچھ سوچ کر فطرت نے آنکھوں میں زباں رکھ دی
اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شاعری کے رسیا تھے۔ قدیم شعراء کا مطالعہ کرتے تھے۔ مشاعروں میں بھی گاہے ماہے شرکت ہوتی تھی۔ سخن فہم تھے۔ نثر لکھنے والوں میں منٹو اور خواجہ احمد عباس کو پسند کرتے تھے۔ یوسفی اور مجتبیٰ کے مضامین تو روزانہ ہی پڑھا کرتے تھے۔ انگریزی اور اردو ادب کی کتابیں ان کے ہاں وافر مقدار میں موجود تھیں۔ چونکہ امن پسند تھے اس لئے انہیں زاغ و زغن سے نہیں بلکہ کبوتروں سے انسیت تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر عام و خواص میں بیداری علم کی تحریک پیدا ہو۔ ہم جمود سے نکل کر باعزت قوم کہلائیں۔ وہ ہر انسان میں ایک مفکر اور بلند خیالی دیکھنے کے خواہاں تھے۔ اسلاف کے کارناموں پر شیخی بگھارنے کو وہ سخت ناپسند کرتے تھے۔ بیساکھیاں انہیں پسند نہیں تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم خود ہی اپنی شناخت بنائیں، اپنے پیروں پر کھڑیں۔
دوسری اقوام کی تہذیبوں سے مرعوب ہونے کا جو رجحان
(Trends)
دوسروں میں دیکھا جاتا ہے وہ اس مرض سے مبرا تھے۔ تاہم وہ ڈسپلن اور پابندی وقت کے معاملے میں مغرب کی تقلید کو پسند کرتے تھے۔ مگر دیگر امور میں مغربی تہذیب کی تقلید سے حتی الامکان خود کو بچایا۔ اپنی عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ انہوں نے مغرب میں گذارا تھا مگر مزاج میں استقلال کے سبب ان کی زندگی مستقیم خطوط پر رواں دواں رہی۔

شیام سندر پرساد کنچن آئی ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹر واقع مرلی دھر باغ جواہر لال نہرو روڈ حیدراباد کے ڈائرکٹر تھے۔ جنہوں نے چوہتر سال کی عمر پائی اور 30 مئی بروز ہفتہ کو آنجہانی ہوگئے۔خالق کائنات نے انہیں تمام نعمتوں سے سرفراز فرمایا تھا مگر ’’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا‘‘ کے مصداق وہ حقیقی اولاد سے محروم رہے۔ اپنے بڑے بھائی آنجہانی مرلی دھر پرساد کی تمام اولادوں کو اپنی اولاد کی طرح چاہا۔ ان کی تعلیم تربیت اور شخصیت سازی میں کوئی دقیقہ اٹھانہ رکھا۔ چنانچہ تمام بھتیجے مختلف شعبوں میں ڈاکٹر ہیں۔
ایسے آہنی عزم و ارادے کے مالک اور ایسے سیکولر انسان کا پرلوک سدھار جانا یقینا قومی نقصان ہے۔
آئے عشاق گئے وعدۂ فردالے کر
اب انہیں دھونڈ چراغ رخِ زیبالے کر