مایاوتی کی سیاسی قلا بازیاں

   

جوشِ نمو سے کھلتے ہیں دشت ِوفا میں پھول
خونِ جگر سے کام لے ، رنگِ حنا نہ مانگ
مایاوتی کی سیاسی قلا بازیاں
بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی سیاسی موقع پرستی اور قلا بازیوں کیلئے شہرت رکھتی ہیں۔ انہوں نے بیشتر مواقع پر اپنے سیاسی مفادات کیلئے ایک جماعت کو چھوڑ کر دوسری سے اتحاد اور مفاہمت کی ہے ۔ اس کی ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے اترپردیش میں اقتدار کیلئے جہاں کبھی بی جے پی سے اتحاد کیا تھا وہیں کبھی انہوں نے اپنی کٹر حریف سماجوادی پارٹی سے دوستی کی ۔ کبھی کانگریس کو ساتھ ملایا تو کبھی کچھ مقامات جماعتوں کے ساتھ جا کھڑی ہوئیں۔ گذشتہ لوک سبھا انتخابات میں سماجوادی پارٹی سے اتحاد کرنے کے بعد مایاوتی نے اب اس اتحاد کو بھی ختم کردیا ہے ۔ مایاوتی کبھی دوسری جماعتوں کو استعمال کرتی ہیں تو کبھی خود بخود کسی اور جماعت سے دوستی کا ہاتھ بڑھا دیتی ہیں۔ حالیہ وقتوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ مایاوتی کسی طرح بی جے پی سے قربت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کو تنقیدوں کا نشانہ بنانے لگی ہیں۔ اب جبکہ راجستھان میں کانگریس کیلئے بحران کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ وہاں اشوک گہلوٹ کی حکومت کی بقا مشکل ہوتی جا رہی ہے ۔ سیاسی اور قانونی رسہ کشی کا دور چل رہا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے در پردہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ وہاں کسی طرح کانگریس حکومت کو زوال کا شکار کردیا جائے اور بی جے پی پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کرلے ایسے میں مایاوتی اب اپنے ارکان اسمبلی کونا اہل قرار دینے کیلئے کوششیں شروع کرچکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاسی شعبدہ بازی ہوسکتی ہے کیونکہ راجستھان میں بی ایس پی کے چھ ارکان اسمبلی بہت پہلے ہی کانگریس میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور عملا راجستھان اسمبلی میں بی ایس پی کا کوئی رکن اسمبلی نہیں ہے ۔ تاہم مایاوتی اب ان ارکان اسمبلی کو نا اہل قرار دینے کی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے ریاست میں بی جے پی حکمرانی کی واپسی کو یقینی بنانے کی کوشش شروع کرچکی ہیں۔وہ اپنے اقدامات کے ذریعہ بی جے پی کیلئے راہ ہموار کر رہی ہیں اور شائد ان کا مقصد بالواسطہ اقدامات کے ذریعہ ہی سہی بی جے پی سے دوستی گانٹھنا اور تعلقات کو بحال کرنا ہی ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ سارے ملک میں کورونا کا قہر چل رہا ہے ۔عوا م پریشان حال ہیں۔ ان کے مسائل میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے ۔ ملازمتیں اور روزگار متاثر ہوگیا ہے ۔ نوکریاں چلی گئی ہیں۔ تجارت ماند پڑ گئی ہے ۔ صنعتی پیداوار ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے ۔ مہنگائی اپنے عروج پر ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں پر من مانی اکسائز ڈیوٹی عائد کی جا رہی ہے اور عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر سرکاری خزانہ بھرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں مرکزی حکومت کے خلاف محاذ آرائی کرنے اور اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے لیکن مایاوتی ایسا کرنے کی بجائے اپنا سیاسی مستقبل تلاش کرنے میں مصروف ہوگئی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ بی جے پی نہ اترپردیش میں اور نہ ہی قومی سطح پر مایاوتی کی ضرورت ہے اس لئے وہ اپنی شرائط پر یہ اتحاد ہیں کرسکتیں لیکن وہ اپنے اقدامات کے ذریعہ بی جے پی کو سیاسی طور پر رجھانے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان کا مقصد اترپردیش میں بی جے پی کے سہارے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنا اور سیاسی استحکام حاصل کرنا ہی ہوسکتا ہے ۔ یہ مفاد پرستی اور موقع پرستی کی مثال ہے ۔ ملک اور قوم کو درپیش حالات میں جو سیاسی ذمہ داریاں اور تقاضے ہیں ان کی تکمیل کرنے کی بجائے مایاوتی اپنے مستقبل اور سیاسی استحکام کی فکر میں تگ و دو کر رہی ہیں اور کسی پہلو پر مستحکم موقف اختیار کرنے کی بجائے اپوزیشن کی صفوں میں مزید انتشار اور اختلافات کو ہوا دینے میں مصروف ہوگئی ہیں۔
ملک کے جو موجودہ حالات ہیں اور وباء نے تباہی مچائی ہوئی ہے ایسے میں عوامی مسائل کو اجاگر کرنے ‘ حکومت کو جھنجھوڑنے اور اس کی ناکامیوں اور خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے عوام میں شعور بیدار کرنے کی بجائے بی ایس پی سربراہ اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے سرگرم ہوگئی ہیں۔ اترپردیش میں عوام آدتیہ ناتھ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں ۔ مائیگرنٹ ورکرس کے مسائل کی وجہ سے حکومت پر برہمی ہے ۔ ملازمتوں کا مسئلہ بھی مزید شدت اختیار کرسکتا ہے ۔ مرکزی حکومت بھی کورونا راحت رسانی میں ناکام ہوگئی ہے ۔ ایسے میں مایاوتی کو عوامی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے اور اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد پیدا کرتے ہوئے سیاسی استحکام حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی لیکن وہ قلابازیاں لگانے میں مصروف ہیں۔