متبادل راستہ ۔ وقت کا تقاضہ

   

اِدھر آؤ فیاض ، دیکھو یہ خبر آج تمہارے امتحان کے ریزلٹ کا دن مقرر ہوچکا ہے ٹھیک پانچ دن بعد نتیجہ برآمد ہوگا ۔ فیاض ابو کے اس انکشاف سے خوف زدہ تھا چونکہ وہ ابھی محلے کے میدان میں کرکٹ میاچ کیلئے ذہنی خاکہ تیار کررہا تھا کہ کس طرح اپنے دوستوں کی گنبد پر کتنے رن بنانا تھا اور اس میاچ میں اپنا ریکارڈ خود توڑنا تھا اس کے دوستوں نے چیلنج بھی کر رکھا ، اس لحاظ سے وہ اور متحرک تھا ۔
اس نے یوٹیوب پر کس طرح سے میاچ کو بہتر اور کامیاب بنانے پر اپنا وقت صرف بھی کررہا تھا ۔ دفعتاًجب ابو کے انکشاف خبر نے اس کے ٹارگیٹ پر ایک تیز گیند کی طرح کلین بولڈ کردیا تو و حیران ہوگیا۔ابو اس کے چہرے اور دماغ میں چل رہی ہلچل سے واقف ہوچکے تھے انہوں نے فوراً کہا فیاض دیکھو اس بار میں تمہاری خواہش کے مطابق کالج کی تمام تر تفصیلات بھی حاصل کرلی ہے بس نتیجہ کی امید میں بیٹھا ہوں ۔ مسابقتی امتحان کا نتیجہ ہی تمہاری آگے کی زندگی کو سنوارسکتا ہے اور اس کیلئے تم کس حد تک کوشش کی ہے اس کا اندازہ بھی اس امتحان کے نتیجہ سے ظاہر ہوگا ۔ فیاض کھڑے کھڑے ابو کے الفاظ سن رہا تھا ۔ لیکن حقیقت کیا ہوگی اسے اچھی طرح معلوما تھی ۔ گویا وہ اپنے دن تو گذار دئے اور ان دنوں میں کس حد تک کامیاب وہ رہا یہ اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا ۔ ابو سے نظریں چراتے ہوئے فیاض اپنے کندھے پر کرکٹ کٹ رکھ کر نکل پڑا ۔ وہ دھیمے دھیمے قدم جماتے ہوئے میدان کی طرف رواں تھا مگر اس کے دل و دماغ میں کئی سوالات گردش کررہے تھے کہ اس بار ابو کے مقصد پر وہ نہیں اترپایا چونکہ انٹرنس امتحان اس کا ٹھیک طرح سے نہیں گیا تھا اور اسے قوی امکان تھا کہ وہ اس میں کامیاب نہ ہوپائے گا ۔ لیکن اس کی خواہش پر کوئی توجہ نہیں دے پارہا تھا وہ روایتی تعلیم سے بہت دور تھا وہ ٹیکنیکل کورس کرنے کا خواہشمند تھا تاکہ جلد ہنر اور جلد روزگار سے منسلک ہونا چاہتا تھا۔’’ خیر جو بھی ہو ممکن ہے ٹھیک ہوگا ‘‘ یہ سوچ کر وہ خاموش تھا ۔ مسابقتی امتحان کا نتیجہ آچکا تھا اور اس میں فیاض کا رینک بہت دور تھا ۔ یقیناً وہ کامیاب تو ہوچکا لیکن رینک کی وجہ سے اسے کسی بھی معیاری کالج میں داخلہ ملنا مناسب نہیں تھا ۔ ابو نے کئی دفعہ کالجس اور دانشوروں سے ملاقات کرتے ہوئے کونسلنگ کے اہم تواریخ پر اس رینک کی بنیاد پر کوشش کرلی ۔ آخر کارانہوں نے فیصلہ کرلیا کہ آئندہ سال پھر اسی بنیاد دوبارہ انٹرنس امتحان میں شرکت کروائینگے ابو کے اس فیصلہ پر گھر والے تو حامی بھرچکے تھے لیکن فیاض ایک پل کیلئے بھی تیار نہیں تھا ۔ رات دیر گئے فیاض نے ابو کے روبرو ہو کر کہا ، ابو میں آپ کی خواہش کے مطابق رینک نہیں لاسکا اس کا مجھے بے حد افسوس ہے لیکن شاید ہوسکتا ہے کہ آئندہ میں اچھا رینک لا بھی لوں تو اس میں بہتر کارکردگی انجام دے نہ پاؤں دراصل میں نہیں چاہتا کہ میں روایتی تعلیم حاصل کرتے ہوئے اپنا مستقبل سنواروں لہذا میں کسی ہنر کے ساتھ روزگار کی تلاش میں ہوں اور اس کیلئے بہت سارے کورسز ہیں جہاں پر ہنر کے ساتھ روزگار کی طمانیت بھی ہے اور میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ میں اپنا کیریئر بنانا چاہتا ہوں ۔ اگر آپ کو میرے اس ارادے سے کوئی خدشہ ہو تو اس کے بارے میں تفصیلات سے بھی واقف ہوسکتے ہیں اور اس کے بعد ہی میں اس کورس کو کرونگا ۔ ابو فیاض کے اس اظہار خیال سے کچھ دیر کیلئے ششدر رہ گئے لیکن انہوں نے اس کی تحقیق شروع کردی کہ آیا یہ کیا کورس ہے اور اس میں کیا چیزیں درکار ہونگیں ۔ کچھ دن تو یوں ہی چلتے رہے جب تک ابو اس تعلق سے مطمئن نہ ہوئے تو انہوں نے اپنا فیصلہ نہیں سنایا ایک دن اچانک ابو نے فیاض کو اپنے کمرے میں بلایا اور فیاض کے حوالے ایک کٹ دیا جس میں ایک لیاپ ٹاپ اور کورس کا فارم موجود تھا اس کا داخلہ ہوچکا تھا مذکورہ کورس میں وہ اس لمحہ بہت خوش تھا ۔ ابو کا شکر ادا کر کے فوراً وہ گھر سے انسٹی ٹیوٹ کی طرف نکل پڑا ۔ امی جان بڑی حیران تھیں کہ آخر یہ فیصلہ کس طرح عمل میں آیا اور انہوں نے پوچھ ہی لیا تھا ،ابو نے اپنے ڈیسک سے اخبار نکلا اور بتایا اس میں لکھا تھا ۔ والدین اپنے بچوں کی مثبت اور دوراندیش سوچ کو فروغ دیں اور ساتھ ہی ان کی حوصلہ افزائی کریں۔