مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہےیورپ سے نہیں ہے

   

عبدالغفار نظامی
مسلمان کے نزدیک اپنے جان و مال آل و عزت سے بڑھ کر اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے حبیب ﷺ سے محبت ہے ۔ شعائر اسلام کی تعظیم و تکریم بقاء و تحفظ ہر مسلمان کی شرعی و اخلاقی ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری سے اعراض کرنا اور اس میں سستی و کااہلی کرنا دین سے بیزاری کا اعلان کرنے کے مترادف ہے ۔ شعائر اللہ کے خلاف اٹھنے والی طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور اس کے تحفظ کیلئے جان و مال آل و اولاد الغرض دنیا و مافیھا کی ہر چیز قربان کرنے کیلئے تیار ہوجانا عین ایمانی تقاضہ ہے ۔
اسلام پیغام امن کا مذہب ہے اس مذہب کو لیکر آنے والے ہمارے آقا رسول کریم ﷺ ہر زمانہ کی ضرورت ہے وہ اس لئے کہ آپ کو رب ذوالجلال نے وجہ تخلیق کائنات بنایا بے مثل و بے مثال پیدا فرمایا اور انسان کامل و خاتم البینین بنایا ہے ۔ صبح قیامت تک آپ کی اتباع ہر ایک پر لازم کردی گئی ہے ۔ آپ کی اتباع کے بغیر کسی کیلئے کوئی چارہ نہیں۔ ساری دنیا آپ ہی کی شریعت پر چل کر امن قائم رکھ سکتی ہے اور انسانی حقوق کی پامالی سے بچ سکتی ہے لیکن آج مسلمان ملکی سطح پر ہو یا عالمی سطح پر اپنے انصاف کی لڑائی لڑ رہا ہے اور پرزور کوشش کر رہا ہے کہ اس کے حصہ کا انصاف اس کو مل جائے جبکہ مسلم ممالک کو آج بھی یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں پر ڈھائے جارہے مظالم کے خلاف اگر آواز اٹھائے اور 20 فیصد سے 30 فیصد کا بھی صحیح معنوں میں ردعمل دیں تو مثبت نتائج نکل کر سامنے آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے آج کے فسادات اور تشدد اسرائیل کے سر جاتے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ ناحق قبضہ کرنے کے بعد ہونے والے فسادات و مظالم وہی ظالم ناحق قبضہ کرنے والے ہی کے سر ہوگا اور وہی اس کے ذمہ دار ہو گا ۔
آج غزہ ایک المناک مرحلے سے گذر رہا ہے ۔ تباہی کی انتہاء ہوگئی ۔ ہسپتال پر بم باری کی گئی ۔ عمارتیں تباہ و تاراج ہوگئی ۔ باپ اپنے وارث کھو دئے ۔ ماؤں کی گود اُجڑ گئی ۔ مکمل طور پر بجلی اور پانی کی سپلائی بند کردی گئی ۔ بہن بہنوں نے اپنے بھائیوں کو اپنے آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ بھائی اپنے بہنوں کی لاشوں کے سامنے لاچار کھڑا ہے ۔ ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں ۔ الغرض غزہ پر اسرائل قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ ایک طرف دہشت گرد اسرائیلی یہ تماشہ مچارکھا ہے تو دوسری طرف امریکی و یوروپی قائدین اسرائیل کی حمایت کا مشترکہ اعلان ساری دنیا کو سنارہے ہیں ۔ امریکی طاقتیں اسرائیل کی دفاعی ضروریات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے اور یہ سارا کچھ تماشہ عرب مسلم طاقتوں کے سامنے ہو رہا ہے ۔ مزید امریکہ کا ہتھیاروں سے بھرا طیارہ سارے مسلم ممالک کے آنکھوں کے سامنے اسرائیل تک پہونچا دینا اور اسرائیل کا ان ہتھیاروں سے مظلوم فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کرتے ہوئے معصوم بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا اس کے باوجود مسلم ممالک کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا یہ اس بات کو تو ہر گز ثابت نہیں کرتا کہ فلسطین اور مسجد اقصی صرف فلسطینیوں کا مسئلہ ہے ۔ بلکہ یہ مسئلہ تمام ملت اسلامیہ کا ہے اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔ فلسطین کو ہم کبھی بھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑسکتے ۔ فلسطین اور مسجد اقصی کی حمایت کرنے اور ان مظلوموں پر ڈھائے جارہے مظالم کے خاتمہ کیلئے ایک مسلمان کو دنیا کی کونسی طاقت روک سکتی ہے ؟ مسلمان کے نزدیک زندگی کا کیا تصور ہے ۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ان اللہ اشتری من المونین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنتہ :بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کی جان و مال اس بدلے میں خرید لئے کہ ان کیلئے جنت ہے ۔
رہی بات یہودیوں کی تو قرآن کی رو سے وہ روئے زمین پر زندگی کے سب سے بڑے حریص ہیں ۔ شہادت کا نہایت درجہ کا شوق مسلمانوں کا خاصہ ہے انشاء اللہ صبح قیامت تک رہے گا ۔ موت سے ڈرنے والی قوم کو دنیا کی کوئی بھی طاقت شکست دے سکتی ہے ۔اور اس قوم کیلئے کوئی فتح و کامرانی نہیں ہے ۔ آج مسلمان کثیر تعداد میں ہوکر بھی دنیا میں ظلم کا شکار کیوں ہو رہے ہیں تو اس کا سبب سنیں ابو داؤد کی اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے ۔
حضرت ثوابان سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔ قریب ہے کہ کہ دہگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑھتے ہیں ۔ تو کسی نے پوچھا کیا ہم اسو قت تعداد میں کم ہوں گے نبی کریم ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ تم اس وقت بہت ہوں گے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہوں گے ۔ اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا تو کسی نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ وہن کیا چیز ہے ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا دنیا کی محبت موت سے کراہت۔
آج مسلمانوں کا فلسطین پر ڈھائے جارہے ظلم و بربریت کا مکمل صفایا نہ کرنا حدیث میں مذکور ان ہی دو اسباب کی وجہ سے ہے ۔ آج کیا حال ہے مسلمانوں کا دنیا سب کی دلدادہ ہوگئی ہے ۔ موت سے بے خوفی ایک افسانہ بن کے رہ گئی ہے ، ہماری قوت ایمانی و جوش اسلامی سے جو کل بے انتہاء خوف زدہ رہتے تھے ۔ آج ہمارے سامنے ہی ہمہارا تماشہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔ ہندوستان میں پیش آئے ایک حالیہ واقعہ کے تناظر میں جب سعودی عربیہ نے انڈین مصنوعات پر ہلکا سا کپڑا ڈال کر بائکاٹ کرنے لگا تو مثبت نتائج نکل کر آنے میں زیادہ دیر نہیں لگی ۔ جب یہ طئے ہے کہ کسی نہ کسی طرح آپ کی باوزن معونت کے یہ محتاج ہیں تو اس کا تو پورا فائدہ تمام ملت اسلامیہ کو ہونا چاہئے ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ سب کو اپنی فکر ہے سب کو اپنی جان پیاری ہے ۔ اب وقت ٹوئٹ کرنے کا نہیں ہے ۔ میڈیا پر آکر الفاظ سے تائید کرنے کا وقت نہیں ہے کوئی بھی مسلم ملکی سطح کا صاحب اقتدار یہ دونوں کام کرکے اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے فریضہ کو انجام دے چکا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہوگی اور کل عنداللہ بھاگنے کی کوئی راہ نہیں ہوگی اور اللہ کی پکڑ بہت ہی سخت ہے۔ جس وقت فلسطین معصوم بچے تڑپ تڑپ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھ رہے تھے اور مظلوم مقتولین کی تعداد ہزاروں تک پہونچ جارہی تھی ۔ اس وقت OIC کا الفاظی مذمتی بیان دنیا اور فلسطین کے غیر متوقع امداد کیلئے اسلامی ممالک کو زور دینا جیسے بیان کسی ذلت و رسوائی سے تعبیر ہے ۔ عام لوگ اپنے اپنے ملک میں اسرائیل مظالم کے خلاف اپنی اپنی لیاقت و حیثیت کے مطابق کھڑے ہیں ۔ لیکن اس سے کیا زیادہ اثر ہوگا ؟ اسرائیل جانتا ہے وقتیہ طور پر آوازیں اٹھیں گے ریالیاں نکلیں گی پھر لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجائیں گے ۔ اصل ذمہ داری مسلم اصحاب اقتدار کا عملی جوابی کاروائی ہے لیکن افسوس کارروائی تو کجا ڈھائے جارہے ہے مظالم کو روکنے سے بھی یہ لوگ بالکلیہ تیار نہیں ہیں ۔
بہرحال مسلمانوں ہماری کامیابی اپنے اپنے ملک کے قوانین کے حدود میں رہتے ہوئے مضبوط منصوبہ بندی کرنے اور دنیا بھر میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالی و مظالم کے خاتمہ کیلئے جوابی و دفاعی قوتوں کو یقینی بنانے میں ہے ۔ اللہ پاک ہماری کوتاہیوں کو معاف رمائے اور دنیا و مافیھا کے خوف سے بے نیاز فرمائے ۔ ظلم کے خلاف ہر حال لڑنے کی طاقت عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی ﷺ
یورپ کی غلامی پر رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یوروپ سے نہیں ہیں