محسن انسانیتؐ کا پیغام انسانیت کے نام

   

سید شاہد حسین
الحمد للہ وکفی وسلام علی عبادہ الّذین اصطفیٰ اما بعد !
اسم ’’محمدؐ‘‘ قرآن مجید میں چار مرتبہ آیا ہے اور ہر مرتبہ آپ کے منصب رسالت کے سیاق وسباق میں ۔ ’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں ‘‘۔(سورہ آل عمران آیت ۱۴۴) ۲۔’’ محمدؐ تمہارے مردوں میںسے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور (انبیاء کی نبوت )کی مہر یعنی اس کو ختم کردینے والے ہیں‘‘۔(سورہ احزاب آیت ۴۰) ۳۔ ’’جو لوگ اللہ پرایمان لائے اور اچھے کام کئے اور جو کچھ محمدؐ پر اتار اگیا ہے اور وہ ان کے پروردگار کی طرف سے امر واقعی ہے تو ان کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور ان کی حالت بہتر کردی جائے گی۔(سورہ محمد آیت ۲) ۴۔ ’’ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں ‘‘۔(سورہ فتح آیت ۲۹) ان چاروں آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی ؐ کا نام مبارک لے کر آپؐ کی رسالت ونبوت کے منصب کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے تاکہ کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش باقی نہ رہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ‘‘ اس آیت میں تین احسانات جتلائے جارہے ہیں ۔سینہ کھول دینا ، اس کا مطلب ہے سینے کا منور اور فراخ ہوجانا تاکہ حق واضح بھی ہوجائے اور دل میں سمابھی جائے۔اسی مفہوم میں قرآن کریم کی یہ آیت ترجمہ : ’’جسے اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے ‘‘۔ اسی مفہوم میں ایک اور آیت مبارکہ سورۂ زمر میں مذکور ہے ’’جس کسی کا سینہ اسلام کے لئے اللہ نے کھول رکھا ہے وہ اپنے رب کی روشنی پر چلتا ہے‘‘ ۔ یعنی حق تعالیٰ نے آپؐ کو توفیق وبصیرت کی ایک عجیب روشنی عطا فرمائی ۔ نہ اسلام کے حق ہونے میں کچھ شک ہے نہ احکام اسلام کی تسلیم سے انقباض ہے۔اس شرح صدر میں وہ شق صدر بھی آجاتا ہے جو معتبر روایت کی رو سے چار مرتبہ نبی کریمؐ کا کیا گیاہے۔ ایک مرتبہ دائی حلیمہ کے پاس بچپن میں جب حضرت جبرائیلؑ آئے اور انہوں نے آپ ﷺ کا دل چیرا اورپھر اسے دھوکر بند کردیا۔ دوسری مرتبہ دس سال کی عمر میں ، تیسرا اعلان نبوت سے قبل اور چوتھا سفر معراج کے موقع پر اس موقع پر آپؐ کا سینہ مبارک چاک کر کے دل نکالا گیا۔ اسے آب زم زم سے دھو کر اپنی جگہ رکھ دیا گیا اور اسے ایمان وحکمت سے بھر دیا۔
قرآن مجید نے جگہ جگہ آنحضرتؐ کے اوصاف بیان کئے ہیں جن سے آپؐ کی پیغمبرانہ شخصیت نمایاں ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْـمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ‘‘ اس آیت میں جووصف بیان کیا ہے وہ نہایت جامع اور بڑا معنیٰ خیز ہے ۔ آپ کا ظہور کسی ایک ملک ،کسی ایک قوم یا کسی ایک نسل کے لئے نہیں ہے بلکہ سارے جہان والوں کے لئے رحمت کا ظہور ہے ۔ اپنوں کے لئے تو آپ رؤف ورحیم ہیں لیکن غیروں اور جانی دشمنوں پر بھی آپؐ کی رحمت کا سایہ پڑ رہا ہے ۔ آپ کے پیغام کے طفیل سے انسانی عظمت ، مساوات ، جمہوریت ، علم کی عام اشاعت وغیرہ جیسی نعمتیں روئے زمین پر عام ہوئیں اور انسانیت کیلئے ترقی کی نئی راہیں کھلیں۔ آنحضرتؐ کا پیغام جو سرتاپا رحمت وبرکت ہے اس کی بنیاد توحید پر ہے ۔ جب آپؐ چالیس برس کے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر وحی بھیجی ۔قرآن مجید نازل فرمایا اور خاتم النبیین کے بلند ترین مرتبہ سے سرفراز فرما کر ساری انسانیت کی ہدایت کے لئے آپؐ کو اپنا رسول منتخب فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ سورہ اعراف میں فرماتا ہے ترجمہ : ’’ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امّی پر جو کہ یقین رکھتا ہے اللہ پر اور اس کے سب کلاموں پر اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم راہ پاؤ ‘‘۔ یہ آیت بھی رسالت محمّدیہؐ کی عالم گیر رسالت کے اثبات میں بالکل واضح ہے ۔یوں تو آپؐ پوری بنی نوع انسانی کے نجات دہندہ اور رسول ہیں ۔ آپؐ پر ایمان لانا تمام انبیاء ومرسلین اور تمام کتب سماویہ پر ایمان لانے کا مترادف ہے ۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو امّی کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ امّی کے معنیٰ ہیں ان پڑھ ۔ یعنی آپؐ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کئے ۔ کسی سے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی لیکن اس کے باوجود آپؐ نے جو قرآن کریم پیش کیا، اس کے اعجاز وبلاغت کے سامنے دنیا بھر کے فصحاء وبلغاء عاجز آگئے اور آپؐ نے جو تعلیمات پیش کیں ان کی صداقت وحقانیت کی ایک دنیا معترف ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقعی اللہ کے سچے رسولؐ ہیں ورنہ ایک امّی ایسا قرآن پیش کرسکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات بیان کرسکتا ہے جو عدل وانصاف کا بہترین نمونہ اور انسانیت کی فلاح وکامرانی کیلئے ناگزیر ہے ۔انہیں اپنائے بغیر دنیا حقیقی امن وسکون اور راحت وعافیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتی ۔اللہ تعالیٰ سورہ ’’نجم‘‘ میں فرماتا ہے کہ ’’وہ تو صرف وحی ہے جو کہ اتاری جاتی ہے ‘‘ یعنی ایک حرف بھی آپ کے دہن مبارک سے ایسا نہیں نکلتا جو خواہش نفس پر مبنی ہو حتی کہ مزاح اور خوشی کے موقوں پر بھی آپ کی زبان زبان مبارک سے حق کے سوا کچھ نہ نکلتا تھا ۔اسی طرح حالت غضب میں بھی آپؐ کو اپنے جذبات پر اتنا کنٹرول تھا کہ آپؐ کی زبان مبارک سے کوئی بات خلاف واقع نہ نکلتی ۔
’’فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ‘‘ یہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام اور نبی کریمؐ کی کی باہمی قربت کا بیان ہے ۔اسی قربت کے موقع پر نبیؐ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اصل شکل میں دیکھا اور یہ بعثت کے ابتدائی ادوار کا واقعہ ہے ۔دوسری مرتبہ ان کواصل شکل میں معراج کی رات دیکھا کہ ان کے چھ سوپر ہیں ۔ ایک مشرق ومغرب کے درمیان فاصلے جتنا بلند تھا اس کو آپ کے دل نے جھٹلایا نہیں ،بلکہ اللہ کی عظیم قدرت کو تسلیم کیا ۔ ایک بار اور ابھی سدرۃ المنتہٰی کے پاس دیکھا۔ یہ سدرۃ المنتہیٰ ایک بیری کا درخت ہے جو چھٹے یا ساتویں آسمان پر ہے اور یہ حد آخری حد ہے ۔ اس سے اوپر کوئی فرشتہ نہیں جاسکتا۔فرشتے اللہ کے احکام بھی یہیں سے وصول کرتے ہیں ۔ سونے کے پروانے اس کے ارد گرد منڈلارہے تھے ۔حق تعالیٰ کے انوار وتجلیات اس درخت پر چھارہے تھے اور فرشتوں کی کثرت وہجوم کا یہ عالم تھا کہ ہر پتّے کے ساتھ ایک نظر آتا تھا ۔بعض روایات میں ہے کہ ’’مَا يَغْشٰى‘‘ سنہری پروانے تھے یعنی نہایت خوش رنگ جن کے دیکھنے سے دل کھینچا جائے ۔اس وقت درخت کی بہار اور اس کا حسن وجمال ایسا تھا کہ کسی مخلوق کی طاقت نہیں کہ لفظوں میں بیان کرسکے اور رب کی تجلیات کا مظہر بھی وہی تھا۔اس مقام پر نبیؐ کو تین چیزوں سے نوازا گیا۔پانچ وقت کی نمازیں ۔ سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں اور مسلمانوں کی مغفرت کا وعدہ جو شرک کی آلودگیوں سے پاک ہوگا۔
نبی کریمؐ پر آخری آیت جو نازل کی گئی ترجمہ’’ آج میں نے پورا کیا تمہارے لئے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین‘‘ (سورۃ المائدہ ) چنانچہ اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے امّت مسلمہ کے لئے استحکام ، دین کی تکمیل اور امّت مسلمہ پر اپنی نعمت پوری کرنے کا اعلان فرمایا ۔ یہ آیت ۱۰ ہجری میں ’’حجۃ الوداع ‘‘ کے موقع پر ’’ عرفہ ‘‘ کے روز ’’جمعہ ‘‘ کے دن ’’عصر‘‘ کے وقت نازل ہوئی جب کہ میدان عرفات میں نبی کریم ﷺ کی اونٹنی کے گرد چالیس ہزار سے زائد صحابہؓ کا مجمع تھا ۔جس کے تقریباً تین مہینے بعد آنحضرتؐ دنیا سے تشریف لے گئے۔ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت صورتحال یہ تھی کہ قریش کے مغرور سرداروں کی طاقت ٹوٹ چکی تھی ۔ مکہ معظمہ پر توحید کا پرچم لہرا رہا تھا لوگ گروہ در گروہ اسلام قبول کررہے تھے اور سارا جزیرہ حجاز اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہا تھا ۔وحی الٰہی اور سنت نبویؐ نے زندگی کے سارے بنیادی اصول اور ضروری چھوٹے چھوٹے مسائل مدون اور مرتب کردیئے۔
آنحضرتؐ کی پیغمبرانہ تربیت سے وفاداری اور جان نثار فرزندان توحید کی ایک طاقتور جماعت پیدا ہوچکی تھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے دعا کے مطابق بھی امت مسلمہ ظہور میں آچکی کفار کی طاقت ٹوٹ چکی۔ ان کی ساری امیدیں خاک میں مل گئی تھی اور وہ اس بات سے مایوس ہوگئے تھے کہ اسلام کو مغلوب کرسکیں اور تم کو دین حق سے پھیر سکیں۔اب تم کو چاہیے کہ مخالفوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھے ناراض کرنے سے ڈرتے رہو ۔ یعنی میرے انعام کی قدر کرو اور میرے پسندیدہ دین کے احکام کی وفاداری اور سچّائی کے ساتھ تعمیل کرو ۔ یاد رکھو! جب تک تم تقوے اور پرہیزگاری کی راہ پر گامزن رہوگے اس وقت تک دنیا میںکوئی بھی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔