محسن ملت ڈاکٹر سید شاہ گیسو دراز خسرو حسینی

   

میر کمال الدین علی خاں
ایک صوفی باصفاء ، ایک مرشد کامل ، ایک مسند نشین سجادہ ، ایک ماہر تعلیم اور اب محسن ملت
گلبرگہ (کلبورگی) تعلیم کا گہوارہ بلکہ یہ کہا جائے گا کہ علوم کا ایک کبھی نہ مرجھانے والا درخت ہے۔ حضرت خسرو حسینی کے والد بزرگوار حضرت سید شاہ محمد حسینی نے اپنے زمانہ میں تعلیم کی بنیاد رکھی اور لڑکیوں کو ان کے گھروں سے بنڈیوں میں مدرسہ (اسکول) بھیجنے کا انتظام کیا اور خواجہ ایجوکیشن سوسائٹی کی بنیاد ڈالی جو اب ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ حضرت گیسودراز خسرو حسینی نے اپنے والد محترم کی طرح کلبورگی میں تعلیم کا جال بچھا دیا۔ موصوف خواجہ ایجوکیشن سوسائٹی کے صدرنشین ہیں۔ اسلام ایک ترقی یافتہ مذہب ہی نہیں بلکہ آفاقی صفات کا حامل بھی ہے۔ علم کی روشنی کو عام کرنے کیلئے حضرت خواجہ دکن گیسو دراز بندہ نواز ؒکی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے خسرو حسینی ہمہ تن گوش ہیں کیونکہ حضرت بندہ نوازؒ کی تعلیمات کسی ایک مذہب ، کسی ایک فرقہ کیلئے محدود نہیں ہیں۔ دور حاضر کے گیسودراز حقیقتاً 700 برس قبل کے گیسو دراز کے نہ صرف ہمشکل ہیں بلکہ ان کی تعلیمات کو عام کرنے کا ایک واحد ذریعہ ہے۔ حضرت گیسودراز ؒکی طرح موجودہ گیسودراز نے بھی بلاتفریق مذہب و ملت و فرقہ ہر ایک کیلئے تعلیم کو عام کیا ہے۔ حضرت گیسو دراز ؒ خسرو حسینی کی پیدائش 10 ستمبر 1945ء میں حیدرآباد میں ہوئی۔ آپ کا پدرانہ سلسلہ گیسودراز بندہ نواز ؒ تک اور اس طرح آپ کا 23 ویں سلسلے سے حضرت غریب نوازؒ تک پہنچتا ہے۔
یہ بات قارئین کو معلوم ہونی چاہئے کہ جب حضرت خسرو حسینی کی پیدائش حیدرآباد میں ہوئی تو حیدرآباد میں بنڈیوں میں مٹھائی تقسیم ہوئی۔ جہاں تک خسرو حسینی صاحب کا تعلق ہے، وہ گرامر اسکول کے طالب علم رہے اور عثمانیہ یونیورسٹی سے عربی، سماجیات اور انگریزی لٹریچر کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں اور پھر کینیڈا میں McGill Universityسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جبکہ امریکہ کی بیلفورڈ یونیورسٹی نے 2004ء میں آپ کے تحقیقی کاموں پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی۔ اسی طرح 2008ء میں گلبرگہ یونیورسٹی نے آپ کو اعزازی ڈاکٹریٹ عطا کی ۔ موصوف 15 بھاری بھرکم اداروں سے وابستہ ہیں۔ حضرت خسرو حسینی کے والدین نے خواجہ ایجوکیشن سوسائٹی کی بنیاد ڈالی اور ان کے والد نے گلبرگہ میں سوسائٹی کے تحت میڈیکل کالج قائم کیا۔ خسرو صاحب نے 1991ء میں صوفی کانفرنس قائم کی۔ حضرت خسرو حسینی کو UN ایوارڈز ملک اور بیرون ملک کے مختلف اداروں سے حاصل ہوئے۔ خسرو حسینی صاحب کا نام کیمبرج یونیورسٹی کی انٹرنیشنل افراد کی فہرست میں شامل ہے۔
حضرت خواجہ بندہ نواز صاحب تصانیف ہیں اور حضرت کے سجادہ نشین بھی کئی تصانیف کے مصنف ہیں۔ خانوادہ بندہ نوازؒ میں یہ تیسرے مصنف اور مؤلف ہیں۔ خواجہ گیسو دراز کے بڑے صاحبزادے دوسرے مصنف ہیں۔ اس طرح آپ حضرت گیسو درازؒ کے بتائے اصولوں پر تصانیف اور تالیفات تحریر کئے ہیں۔ موصوف کا نعتیہ مجموعہ ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ 2002ء میں شائع ہوچکا ہے۔ حضرت خسرو حسینی کی تقریباً 30 سے زائد تصانیف اور تالیفات شائع ہوچکی ہیں۔ موصوف کی ایک اہم موضوع پر کتاب منظر عام پر آئے گی اور اس کا نام ہے ’’سراج منیرا‘‘ ۔ ایک خاص اور اہم بات یہ ہے کہ علیگڑھ کی ایک اہم اور اعلیٰ تنظیم نے حضرت خسرو حسینی کو ’’محسن ملت‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔ ہندوستان میں بہت کم افراد ملت کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں چنانچہ اس کام کو مسلمہ قرار دیتے ہوئے حضرت گیسو دراز خسرو حسینی کو ’’محسن ملت‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا جو ایک اہم بات ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خسرو حسینی صاحب کی تعلیمی خدمات کو سارے ملک میں مسلمہ حیثیت دی گئی ہے۔ حضرت خسرو حسینی نے مسلم اقلیت کیلئے یونیورسٹی بھی قائم کی جو خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی سے موسوم ہے، اس یونیورسٹی کے قیام کے بعد علیگڑھ کے سرسید اویرنیس فورم کی جانب سے ’’محسن ملت‘‘ کا خطاب دے کرکہا گیا کہ انہوں نے ملت کے افراد کی بلالحاظ مذہب و ملت خدمت انجام دی ہے جو ناقابل تسخیر ہے۔ حضرت خسرو حسینی کے موج در موج اور میدان در میدان کارنامے خواہ ان کا تعلق کسی بھی سمت، موضوع اور زاویہ سے کیوں نہ ہو، ثانوی اہمیت کے حامل قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ حضرت خسرو حسینی کی خدمات، مذہب، ثقافت، تعلیم، تہذیب و تمدن ملک کی ہمہ جہت ترقی، عالمی اُخوت ،سربلندیٔ اسلام، بھائی چارگی، ہندوستان کی ذہنی تاریخ کے ایسے آفاق ہیں جن میں حضرت خسرو حسینی کے کمال دیکھے جاسکتے ہیں، اس لئے علیگڑھ میں سرسید اویرنیس فورم نے خسرو حسینی صاحب کو ’’محسن ملت‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔