محمد مرسی کی موت

   

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد مرسی کی موت
مصر کے سابق صدر محمد مرسی کی کورٹ سیشن کے دوران موت ایک بڑا المیہ ہے۔ مصر کی موجودہ حکومت اور حکام کی زیادتیوں کا واضح ثبوت ہے کہ جیل میں ان کی بگڑتی صحت پر توجہ نہیں دی گئی۔ مصر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر اسلام پسند محمد مرسی کی موت مصر کی مستقبل کی سیاست میں ایک نیا موڑ لاسکتی ہے۔ 67 سالہ مرسی کوعرب انقلاب کے دوران 2011 میں حسنی مبارک کو بیدخل کرنے کے بعد صدر کی حیثیت سے منتخب کیا گیا تھا۔ مصر کے عوام نے جمہوری طرز کی حکمرانی کو ترجیح دیتے ہوئے اخوان المسلمین کو ووٹ دیا تھا لیکن اسلام دشمن طاقتوں کو محمد مرسی کا انتخاب کھٹکنے لگا تھا، اس لئے 2013 میں مصر کی فوج کی مدد کے ذریعہ محمد مرسی کو بیدخل کردیا گیا ۔ ان کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کو ہوا دے کر فوجی بغاوت کا ماحول تیار کیا گیا تھا۔ اخوان المسلمین کی اعلیٰ قیادت محمد مرسی کو صدر کی حیثیت سے بیدخل کردینے کے بعد سے ہی جیل میں محروس رکھا گیا، ان پر کئی ایک سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے۔ عدلیہ کی توہین پر 3 سال کی سزا، احتجاجیوں کو ہلاک کرنے کیلئے اُکسانے کے الزام میں 20سال کی سزاء کے علاوہ جاسوسی کے لئے 25 سال کی سزا دی گئی تھی اور ان جاسوسی کے الزامات کے کیس کی سماعت کے دوران ہی پیر کے دن وہ کمرہ عدالت میں گرپڑے اور فوت ہوگئے۔ کمرۂ عدالت میں شیشے کی دیوار والے کٹہرے میں کھڑے ہوکر عدالت سے مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے چند اہم انکشافات کرنے کی بھی دھمکی دی تھی لیکن ان کی صحت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ جیل میں بگڑتی صحت کی جانب حکام کی توجہ مبذول کروائی گئی اور عوام کی جانب سے شدید احتجاج کی دھمکی بھی دی گئی تھی کہ اگر معزول صدر کا جیل کے اندر بہتر خیال نہیں رکھا گیا، علاج معالجہ پر توجہ نہیں دی گئی تو ملک گیر سطح پر عوامی احتجاج شروع کیا جائے گا۔ لیکن مصر کی موجودہ قیادت اور جیل حکام نے ان کی صحت کے مسائل کو بری طرح نظرانداز کردیا ۔ جیل میں گویااسلام پسند رہنما کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا۔ کمرۂ عدالت میں قانون کی نظروں کے سامنے انہوں نے دَم توڑ دیا تو ان کی موت مصر کی بد نصیب جمہوریت کیلئے ایک سانحہ ہے۔ محمد مرسی نے عرب بہار یا عرب انقلاب کی لہر پراڑتے ہوئے مصر کا اقتدار حاصل کیا تھا۔ مصر کی 90 سالہ قدیم اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمین کے ذریعہ مصرکی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ 30 جون 2012 کو وہ مصر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر تھے جو عرب کی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا۔ پہلے اسلام پسند رہنما تھے جنہیں ایک اسلامی ملک کی ذمہ داری حوالے کی گئی تھی۔ لیکن مخالف اسلام اور جمہوریت دشمن طاقتوں نے محمد مرسی کے خلاف سازشوں کا جال پھیلا کر انہیں بیدخل کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔مصر میں آمریت پسندانہ دور سے چھٹکارا پانے والے مصری عوام کو یہ یقین تھا کہ محمد مرسی کے جمہوری انتخاب سے آمریت کی طویل تاریخ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ محمد مرسی کی اچانک موت کا مصر کے حالات پر کیا اثر پڑے گا ، یہ آگے چل کر پتہ چلے گا۔ مصر کے وزیردفاع عبدالفتح السیسی نے صدر مرسی کو بیدخل کرکے 3 جولائی 2013 کو اقتدار حاصل کیا اور بعد ازاں مصر کے صدر بھی منتخب ہوئے ، ان کی حکمرانی میں مصر کے جمہوریت پسند عوام کو مایوس کرکے رکھ دیا ہے۔ محمد مرسی کی موت کی کئی جوہات ہوسکتی ہیں لیکن ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ جیل میں خراب سلوک کیا گیا۔ ان کے ارکان خاندان کو تک ان سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، اور ارکان خاندان کی عدالت میں اپیل بھی دَم توڑ چکی تھی۔ برطانوی سیاستدانوں اور وکلاء کے ایک پیانل نے بھی محمد مرسی کی خراب صحت اور ان کے علاج میں کی جارہی کوتاہیوں کی جانب نشاندہی کی تھی لیکن حکام پر اس شکایت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ مصر کی حکومت نے جیل کے قیدیوں کے ساتھ خاصکر سیاسی قیدیوں کے معاملہ میں بین الاقوامی معیارات کو نظر انداز کردیا۔ ایک غیر انسانی طرز پر محمد مرسی کے ساتھ برتاؤ کیا گیا۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے رکن کرسین بلونت نے مصر کی قیادت اور جیل حکام کی مجرمانہ لاپرواہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مرسی کی موت کیلئے حکومت کو ہی ذمہ دار ٹہرایا ہے۔ اب مصر کی عوام ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنیے کی طاقت رکھتے ہیں تو انہیںسچ کا ساتھ دینے کا ثبوت دینا ہوگا۔ مصر کی اخوان المسلمین تنظیم کو ممنوعہ قرارد ینے والی مغربیت کی حامی حکومت نے اس تنظیم کو دہشت گرد گروپ قرار دیا ہے۔ 1928 سے اسلام پسند تحریک چلانے والی اخوان المسلمین اب صرف ایک دہشت گرد گروپ ہے جبکہ پنٹگان اور امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد گروپ قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ یہ تنظیم دہشت گرد گروپ قرار دینے کی صف میں نہیں آتی۔