محکمہ آثارقدیمہ کے زیر انتظام تاریخی عمارتیں انتہائی غیر محفوظ۔ جماعت اسلامی ہند کی آرٹی ائی میں حیرت ناک معلومات کا انکشاف۔

,

   

لک بھر کے غیر قانونی قبضوں میں سے ایک سال میں صرف دو قبضے ہٹائے گئے‘ انتظار نعیم کی جانب سے ریاستی سرکاروں اور یونین ٹریٹریز کو تقریبا400آر ٹی ائی ارسال

نئی دہلی۔ ہندوستان میں اوقاف اور محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام مساجد وتاریخی عمارت کی بقا وتحفظ کے لئے جماعت اسلامی ہند کے ذریعہ مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ جماعت کے شعبہ ملی وملکی امور کے

اسٹنٹ سکریٹری انتظار نعیم کی جا نب سے گذشتہ چند سالوں میں اہم ملی‘ سماجی‘ وملکی امور پر مرکزی وزراتوں وتمام ریاستی سرکاروں او ریونین ٹریٹریز کو جو تقریباچارسو آر ٹی ائی ارسال کی گئی ہیں‘ جن میں بیشتر کے جوابات موصول ہوئے ہیں‘

ان میں بڑی تعدد قف سے متعلق ان آر ٹی ائی کی ہے جو تمام ریاستوں کے وقف بورڈوں اور محکمہ آثار قدیمہ کو روانہ کی گئی ہیں۔

جماعت اسلامی ہند کی دیرینہ وشش رہی ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر اہتمام مساجد میں پنچ وقتہ نمازوں کا اہتمام ہو اور اس سلسلے میں محکمہ کی جاب سے ناروا پابندی کا خاتمہ ہو‘

لیکن یہ سہولت حاصل ہونے تک جماعت اسلامی ہند کی جانب سے محکمہ آثار قدیمہ کے سرکل افسروں پر مسلسل یہ دباؤ ڈالاجاتا رہتاہے کہ محکمہ کی زیر انتظام مساجد کا مکمل تحفظ ہو اور ان کے اندر یا اطراف کے قانونی تحفظ حاصل علاقوں میں ناجائز غیر قانونی طور پر کی گئیں تعمیرات کا انہدام ہو‘

تاکہ محکمہ کے ذریعہ زیر انتظام مساجد ودیگر تاریخی عمارات کا حقیقی معنوں میں تحفظ ہوسکے۔

جماعت کے اسٹنٹ سکریٹری انتظار نعیم نے حال ہی میں محکمہ آثار قدیمہ کے دہلی سرکل کے ڈپٹی ڈائرکٹر سے ملاقات کرکے اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی اورسرکل کے زیر اہتمام مساجد وتاریخی عمارات کی زبوں حالی پر محکمہ کی توجہہ مبذول کرائی۔

انتظارنعیم نے محکمہ کے ڈپٹی ڈائرکٹر کو بتایا کہ خود محکمہ کی جانب سے جماعت کا یہ معلومات فراہم کی گئی ہے کہ نئی دہلی کے انتہائی اہم علاقے حوض خاص میں محکمہ کے زیر تحفظ عمارتیں کی27جائیدادیں ایسی ہیں جن پر غیر قانونی قبضہ او رناجائز تعمیرات کرلی گئی ہیں لیکن محکمہ ان کے انہدام سے قاصر ہے۔

متعلقہ افسر نے یہ عذر پیش کیا کہ محکمہ اپنی سطح پر ناجائز قابضین کو نوٹس دینے کے ساتھ سرکاری انتظامیہ کے متعلقہ محکموں بشمول ڈپٹی کمشنر(ریونیو) کو انہدام کے لئے نوٹس بھیجتا اور آرڈر کرتا ہے اس کیلئے آثار قدیمہ کے ایکٹ کی رو سے انہدا کا اختیار محکمہ آثار قدیمہ کو نہ ہوکر ڈپٹی کمشنر (ریونیو) کو ہے۔

لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ملک بھر میں واقع 116مساجد وتاریخی عمارات ومندر میں سے صرف تاج محل سرکال کے محفوظ علاقے میں اس وقت 178ناجائز وغیر قانونی تعمیرات موجود ہیں۔

اگرہ میں تاج محل جیسی عالمگیر شہرت کی حامل خوبصورت تاریخی عمارت سے محکمہ آثارقدیمہ کو 2014میں تقریبا 22کروڑ روپئے آمدنی ہوئی تھی لیکن افسوس کے تاج کامپلکس کے اطراف واکناف غیر قانونی تعمیرات میں مسلسل اضافہ ہوتارہتا ہے۔

جماعت کے بارہا توجہہ دلانے کے باوجود محکمہ آثار قدیمہ کا آگرہ سرکل دیگر سرکاری محکموں کو نوٹس دینے کی خانہ پری کرنے کے علاوہ سوائے پراسرار خاموشی اختیار کئے رہنے کے کچھ نہیں کرتا۔

اس کے آر ٹی ائی جوابات سے یہ بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ اس نے سرکاری محکموں کو اقدامی کاروائی کے لئے باربار یادہانی کرائی ہو۔ حیرت انگیز وافسوسناک طور پر گذشتہ ھویل مدد کے دوران محض2018میں صرف حیدرآباد میں دوناجائز وغیر قانونی تعمیرات کے انہدام کی اطلاع دی گئی ہے۔

اس تشویش ناک صورت حال سے واضح ہوتا ہے کہ اگر آثارقدیمہ کی بیش بہا میراث کے ساتھ مذکورہ محکمہ اور مرکزی وزارت ثقافت کا یہی سلوک رہاتو ان کے تحفظ کے سنگین مسائل پیدا ہوجائیں گے۔

حیرت یہ ہے کہ محکمہ کے زیراہتمام بیت اہم اور تاریخی مساجد کی حفاظت سے محکمہ(او رحکومت) خود تو بے پروہ ہیں اور ان کومسلمانوں کے حوالے کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں کہ ان کو نمازو ں سے آباد کیاجائے او رحکومت کے تعاون سے ان کی حفاظت بھی کی جائے۔

امید ہے کہ ملک بھر کے وقف بورڈس‘ سنٹر ل وقف کونسل‘ مرکزی اقلیتی کمیشن‘ مرکزی وزارت اقلیتی امور او رجملہ مسلم ممبران اسمبلی وپارلیمنٹ نیز ملی تنظمیں او راہم مسلم شخصیات اس اہم مسئلہ کو حل کی جانب متوجہہ ہوں گے او رحکومت کو ضروری اقدامات کے لئے آمادہ کریں گے۔

اگر آثار قدیمہ کی بیش بہا میراث کے ساتھ محکمہ آرثار قدیمہ اور مرکزی وزرات ثقافت کا یہی سلوک رہاتو ان کے تحفظ کے سنگین مسائل پیدا ہوجائیں گے۔

حیرت ہے کہ محکمہ کے زیر اہتمام بہت ہم او ر تاریخی مساجد کی حفاظت سے محکمہ (او رحکومت) خود تو بے پرواہ ہیں اور ان کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کے لئے آماد ہ نہیں ہیں کہ ان کو نمازوں سے آباد کیاجائے۔