مختار انصاری زہر کی گولی کا نشانہ!

   

محمد ریاض احمد
ہمارے ملک میں سیاسی اقدار ایسا لگتا ہے کہ پوری طرح ملیا میٹ ہوچکے ہیں۔ مختلف اسکامس کے ذریعہ قومی خزانہ کو لوٹنے والے ملزمین کو بی جے پی لوک سبھا انتخابات میں اپنے امیدوار بنارہی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وزیراعظم ہند مودی کی زیر قیادت بی جے پی گزشتہ دس برسوں سے مرکز میں اقتدار پر فائز ہے لیکن اس کے یہاں ایسے امیدوار کی کمی ہے جو انتخابات میں کامیابی کو یقینی بناسکیں۔ ان حالات میں اب بی جے پی کانگریس اور دوسری سیاسی جماعتوں کے ان قائدین کو نہ صرف اپنی صفوں میں شامل کررہی ہے بلکہ انہیں پارلیمانی انتخابات میں بڑے فخر کے ساتھ اپنے امیدوار بنا رہی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھ پا رہی ہے کہ کون غنڈہ کون لٹیرا کون غدار اس کا امیدوار بن رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں وہ سب کچھ جانتے ہوئے ہی جان بوجھ کر خاموشی اختیار کررہی ہے کیوں کہ اسے تو ہر حال میں اقتدار حاصل کرنا ہے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں امن و امان کی کیا حالت ہے۔ خواتین یہاں تک کہ کمسن لڑکیاں بھی محفوظ نہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت خاص طور پر ان با اثر مسلمانوں کو ٹھکانہ لگارہی ہے جو دولت شہرت و عزت سے مالا مال ہیں اور سیاسی میدان میں بھی اپنا غیر معمولی دبدبہ رکھتے ہیں۔ ہم سب نے دیکھا کہ گزشتہ سال رمضان میں سابق رکن پارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کو الہ آباد میں ایک سرکاری اسپتال کے باہر پولیس اسکارٹ کی موجودگی میں انتہائی بے دردی سے قتل کروایا گیا۔ تین شوٹرس نے خود کو صحافی ظاہر کرتے ہوئے بالکل قریبی فاصلہ سے گولیاں چلائی۔ اس واقعہ میں کسی پولیس والے کی موت نہیں ہوئی اس سے چند دن قبل عتیق احمد کے نوجوان بیٹے اسد احمد کو پولیس انکائونٹر میں شہید کیا گیا تھا۔ عتیق احمد کوئی معمولی آدمی نہیں تھے 4 مرتبہ رکن اسمبلی اور ایک مرتبہ رکن پارلیمنٹ بھی رہ چکے تھے۔ اس وقت چیف منسٹر نے ایسے عدالتی تحقیقات کا حکم دیا جیسے انہیں اس تمام واقعہ کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں۔ اب بھی ڈان سے سیاستدا بننے والے ایک اور بااثر مسلم شخصیت مختار انصاری کو بھی جیسا کہ ان کے ارکان خاندان الزام عائد کیا ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش بلکہ فرقہ وارانہ تعصب و جانبداری کے باعث قتل کروایا گیا ہے جبکہ باندہ جیل حکام کا دعوی ہے کہ مختار انصاری حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے ہیں۔ عتیق احمد کو جہاں بندوق کی گولیوں سے موت کے گھاٹ اتارا گیا اسی طرح زہر کی گولیوں سے مختار انصاری کی زندگی کا چراغ گل کردیا گیا۔ عتیق احمد اور ان کے بھائی کو بھی ماہ رمضان میں قتل کردیا گیا اور مختار انصاری کی موت بھی ماہ رمضان المبارک میں ہوئی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن یہی چاہتا ہے کہ رمضان میں یہ خاندان خوشیوں سے محروم ہوجائیں۔ ان کے گھروں میں صف ماتم بچھ جائے آپ خود اندازہ کیجئے کہ مختار انصاری کی موت پر نہ صرف ا ن کے ارکان خاندان بلکہ اپوزیشن قائدین تیجسوی یادو پپو یادو مایاوتی اوراسد الدین اویسی نے بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ پپو یادو نے تو اسے ادارہ جاتی قتل قرار دیا ہے۔ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کے قتل کی طرح چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے انصاری کی موت (قتل) کی بھی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور اندرون ماہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایاگیا ہے کہ 21 مارچ کو عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں مختار انصاری نے واضح طور پر الزام عائد کیا تھا کہ 19 مارچ کو انہیں کھانے میں زہریلا مادہ ملاکر دیا گیا جس کی وجہ سے وہ شدید بیمار ہوگئے۔ مختار انصاری کو جمعرات کی شام باندہ جیل سے اسپتال منتقل کیا گیا۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ حالت بے ہوشی میں شام 8:25 پھر رانی درگاوتی میڈیکل کالج لایا گیا۔ جہاں 9 ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ان کی حالت پر نظر رکھی اور پھر اسپتال کے میڈیکل بلیٹن میں ان کے انتقال کرجانے کی اطلاع دی گئی۔ مختار انصاری کو منگل کے دن بھی اسپتال میں بھرتی کیا گیا اور تقریباً 14 گھنٹے انہیں اسپتال میں طبی امداد فراہم کی گئی پھر جیل واپس بھیج دیا گیا۔ آپ کو بتادیں کہ مختار انصاری نے اپنے بھائی افضل انصاری کو بھی بتایا تھا کہ انہیں جیل میں زہر دیا جارہا ہے بتایا جاتا ہے کہ 40 دن پہلے ہی مختار انصاری کو زہر دیا گیا تھا اور 19 یا 22 مارچ کو دوبارہ زہر دیا گیا جس کے بعد ہی ان کی حالت خراب ہوئی دوسری طرف جیل حکام کا دعوی ہے کہ انصاری واش روم میں گرپڑے جس کے بعد ہی انہیں اسپتال منتقل کردیا گیا۔ مختار انصاری کی موت کے ساتھ ہی ملک و بیرون ملک ان کی زندگی کے بارے میں جاننے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ایسے افراد کے لیے ہم یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ 63 سالہ مختار انصاری اترپردیش کے حلقہ اسمبلی مئو سے پانچ مرتبہ منتخب ہوئے تھے۔ سب سے پہلے 1996 میں وہ بی ایس پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور پھر 2002 سے 2007 تک اور 2007 تا 2012 آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔ مختار انصاری نے 2010ء میں قومی ایکتادل قائم کی اور 2012تا 2017 میں پھر بی ایس پی نے انہیں اپنا امیدوار بنایا اور کامیابی حاصل کی۔ 11 فروری 2022ء کو مختار انصاری سہل دیو بھارتیہ سماج پارٹی میں شامل ہوئے اور اپنی موت تک اسی سے وابستہ رہے۔ 6 فٹ 6 انچ قد کے حامل مختار انصاری کے خلاف 61 فوجداری مقدمات درج تھے جن میں قتل کے 15 مقدمات بھی شامل ہیں۔ ان کی اہلیہ افشاں کے خلاف بھی مقدمات درج ہیں وہ گزشتہ ایک سال سے مفرور بتائی جاتی ہیں، ان کے سر پر انعام بھی رکھا گیا ہے۔ مختار انصاری اگرچہ ایک مہذب خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 1980ء میں وہ ایک ٹولی میں شامل ہوگئے۔ 190ء میں خود اپنی ٹولی بنالی جس کے نتیجہ میں مئو، غازی پور، وارناسی اور جوتپور میں مختار انصاری کا دبدبہ قائم ہوگیا۔ 2004ء میں انہیں پوٹا کے تحت الزام عائد کرکے گرفتار کیا گیا۔ اس وقت پولیس نے کہا تھا کہ ان کے خفیہ ٹھکانہ سے مشین گن برآمد ہوئی تب سے وہ جیل میں تھے۔ اپریل 2022ء میں انہیں بی جے پی ایم ایل اے کرشنا نند رائے کے قتل کی پاداش میں دس سال قید کی سزا سنائی گئی جاریہ سال 13 مارچ کو انہیں 1990ء سے بندوق کا جعلی لائسنس رکھنے کی پاداش میں سزائے عمر قید سنائی گئی۔ جیسا کہ ہم نے آپ کو بتایا ہے کہ مختار انصاری کے دادا ڈاکٹر محمد مختار احمد انصاری اپنے دور کے مشہور و معروف ڈاکٹر، تحریک آزادی کے ایک ممتاز لہیڈر تھے۔ 1926-27ء میں وہ انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کے صدر تھے اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قریبی رفقاء میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ 1928-36ء کے دوران ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چانسلر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی۔ انہوں نے مدراس میڈیکل کالج سے ایم ڈی ایم ایس کیا اور یونیورسٹی آف اڈنبرگ سے ChM کیا۔ Charig Cross Hospital لندن میں ان سے موسوم ’’انصاری وارڈ‘‘ بھی ہے۔ تعلیمی دور میں ڈاکر مختار احمد انصاری کا خاندان حیدرآباد بھی منتقل ہوا تھا سے مختار انصاری کے نانا بریگیڈیئر عثمان ہندوستانی فوج میں تھے۔ 1947ء کی نوشیرا جنگ میں انہوں نے بڑی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا۔ 1948ء میں جموں و کشمیر میں پاکستان کے خلاف لڑتے ہوئے وہ شہید ہوئے۔ انہیں پرم ویر چکر سے نوازا گیا تھا۔
مختار انصاری ، سابق صدر جمہوریہ حامد انصاری کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں۔ آپ کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ حامد انصاری 2007 تا 2017 نائب صدر جمہوریہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ 38 سالہ سفارتی خدمات کے دوران حامد انصاری کو آسٹریلیا ، افغانستان ، ایران اور سعودی عرب میں ہندوستانی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔ وہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے اور قومی اقلیتی کمیشن کے عہدہ پر فائز رہے۔ مختار انصاری کے والد سبحان اللہ انصاری بھ مجاہد آزادی تھے اور 1971 ء میں وہ غازی پور نگر پالیکا کے صدر بھی رہے ۔ مجاہد آزادی رہتے ہوئے انہوں نے کبھی بھی سرکاری مراعات حاصل نہیں کئے۔ انصاری کے بڑے بھائی صبغت اللہ انصاری نے 2007 تا 2017 ضلع غازی پور کے حلقہ اسمبلی محمد آباد کی اسمبلی میں نمائندگی کی جبکہ دوسرے بھائی افضل انصاری فی الوقت غازی پور ایم پی میں انہوں نے 2004 ء کے پارلیمانی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ مختار انصاری کے فرزند عباس انصاری رکن اسمبلی ہیں جبکہ ایک اور فرزند عمر انصاری بھی سیاست میں سرگرم ہیں۔ بہرحال مختار انصاری نے اپنے قتل کئے جانے سے متعلق جو خدشات ظاہر کئے تھے (یہاں تک عدالت سے رجوع بھی ہوئے تھے) وہ درست ثابت ہوئے۔ اب تو عوام یہ کہنے لگے ہیں کہ عتیق احمد ، اشرف احمد کو پستول کی گولیوں کے ذریعہ قتل کیا گیا اور مختار انصاری کو زہر کی گولیوں سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اب دیکھنا ہے کہ یوگی کے اترپردیش میں اگلا نمبر کس با اثر مسلم شخصیت کا ہے ؟ کہیں اگلا نشانہ اعظم خاں تو نہیں ہیں؟
mriyaz2002@yahoo.com