مدد کریں آپ مگر ضرورت مند کی

   

محمد مصطفی علی سروری

سیّد صاحب کسی کام سے پرانے شہر حیدرآباد سے ٹولی چوکی گئے ہوئے تھے۔ اپنا کام پورا کرنے کے بعد جب وہ واپس ہو رہے تھے، مہدی پٹنم کے قریب اچانک بارش شروع ہوگئی۔ بارش کے موسم میں بارش غیر یقینی نہیں تھی لیکن سید صاحب کے رین کوٹ کی (Zip) خراب ہوجانے کے سبب پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مہدی پٹنم ملٹری علاقے کے قریب ہی وہ ٹھہر گئے تاکہ بارش تھمنے کے بعد اپنا سفر شروع کرسکیں۔ شام کا وقت تھا۔ اس دوران انہوں نے جو منظر دیکھا وہ خود بیان کرتے ہیں۔
’’بارش کے دوران جب میں مہدی پٹنم پر برج کے نیچے کھڑا تھا تو اس دوران میں نے دیکھا کہ دو لوگ جو شکل و صورت سے بالکل نشہ کرنے والے دکھائی دے رہے تھے شام کا اندھیرا ہونے سے پہلے اٹھ کر اپنا لباس او رحلیہ تبدیل کرنے لگے اور آدھے گھنٹے پہلے جو میاں بیوی بالکل پہچان میں نہیں آرہے تھے اب ایک مکمل مسلمان میاں بیوی کا لباس پہن چکے تھے۔ بوڑھی خاتون جو کچھ دیر قبل گھٹنوں تک ساڑھی پہن رکھی تھی اب باضابطہ کالا برقعہ اور اپنے سر پر کا لا نقاب اوڑھ چکی تھی۔ لنگی اور بنیان میں جو شخص تھا اب وہ سفید رنگ کا کرتا پائجامہ پہن چکا تھا۔ سر پر ٹوپی پہننے کے بعد اس بوڑھے نے تو سر پر شال اوڑھ کر پوری طرح ایک مسلمان کا رنگ و روپ دھار چکا تھا۔‘‘
سید صاحب سے رہا نہیں گیا تو انہوں نے قریب جاکر پوچھ ہی لیا تو ان لوگوں نے بتلایا کہ کیا کریں صاحب اب کام کرنے میں دل ہی نہیں لگتا لیکن رات میں تھوڑا گھومنے اور پھر کہیں بیٹھ کر مانگتے رہنے سے کچھ کمائی ہوجاتی ہے۔ جب ان لوگوں سے پوچھا گیا کہ یہ سارا حلیہ کیا ہے؟ کیا تم لوگ مسلمان ہو تو ان لوگوں نے جواب دیا کہ ’’صاحب جو لوگ ہمیں پیسے دیتے ہیں وہ نہیں پوچھتے تو تم کیوں پوچھ رہے ہو اور مسلم محلوں میں مانگنا ہے تو ان کی طرح حلیہ بھی تو رکھنا پڑتا ہے۔‘‘
سید صاحب کس کام سے باہر نکلے تھے نہیں معلوم لیکن مہدی پٹنم کے فٹ پاتھ پر رات گذار کر رات بھر مسلم محلوں میں مانگنے والے فقیروں کے متعلق ان کا تجزیہ ہے کہ قصور ان ڈھونگی فقیروں کا نہیں ہے بلکہ قصور ان لوگوں کا ہے جو ضرورت مند کو ڈھونڈ کر نکالنے کے بجائے راہ چلتے یا راستے میں بیٹھے کسی بھی فرد کو پیسے دے کر نیکی کمانا چاہتے ہیں۔
قارئین اگر آپ حضرات سید صاحب کی بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ ڈھونگی فقیر ایسا کتنا مانگ لیتے ہیں تو یہ والی خبر آپ کو ضرور پڑھنی چاہیے 4؍ اکتوبر بروز جمعہ، ممبئی میں واشی گورنمنٹ ریلوے پولیس کو مانکھورد اور رگوونڈی اسٹیشن کے درمیان پٹریوں پر ایک شخص کی نعش ملی جس کی ٹرین کے نیچے آکر موت واقع ہوگئی تھی۔ ریلوے پولیس نے جب اس نعش کی شناخت کی تو پتہ چلا کہ مرنے والے کا نام آزاد تھا اور مقامی شہریوں کے حوالے سے اخبار ہندوستان ٹائمز نے 7؍ اکتوبر 2019ء کو خبر دی کہ آزاد ایک فقیر تھا اور دن رات گھوم پھر کر لوگوں سے پیسے اور کھانا لیا کرتا تھا۔ اخبار کی رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ آزاد کے سامان کی تلاشی لی گئی تو اس میں پان کارڈ، آدھار کارڈ اور سینئر سٹیزن کارڈ ملا جس سے معلوم ہوا کہ آزاد کی تاریخ پیدائش 27؍ فروری 1937ء ہے اور اس کا تعلق راجستھان کے علاقے رام گڑھ سے تھا۔ خیر یہ تو آزاد کی شناخت تھی۔ اب ذرا اس رقم کے بارے میں بھی پڑھ لیجیے جو کہ آزاد نام کے فقیر کے پاس سے اور جہاں وہ رہتا تھا وہاں سے برآمد ہوئی۔ پولیس کے مطابق آزاد نے 77 لاکھ روپئے بینک میں فکسڈ ڈپازٹ کر رکھے تھے اور اس کے پاس چلر سکوں کی جو رقم تھی پولیس نے ہفتے کی دوپہر سے ان کی گنتی شروع کی اور یہ سلسلہ اتوار تک چلتا رہا تب کہیں جاکر پتہ چلا کہ ایک روپئے 2 روپئے، پانچ روپئے اور 10 روپیوں کے سکوں کو ملاکر جملہ ایک لاکھ 75 ہزار تو صرف چلر نکلا، نقدی کی شکل میں۔
اور بینک کے کھاتے میں جمع رقم 96 ہزار الگ تھی۔ آزاد نام کے اس فقیر کی عمر 82 برس بتلائی گئی۔ مقامی لوگوں نے تو پولیس کو بتلایا کہ آزاد اکیلے رہا کرتا تھا۔ مگر پولیس نے تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ آزاد کا ایک بیٹا سکھدیو ہے جو راجستھان میں رہتا ہے۔ آزاد کہنے کو تو ایک بھیک مانگنے والا فقیر تھا جو لوگوں کے مطابق ان کی جانب سے دی جانے والی امدادی رقم پر گزارہ کرتا تھا لیکن پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ آزاد دنیا کے سامنے تو ایک فقیر تھا لیکن اس کی عقلمندی کا پتہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنی ساری جمع پونجی صرف ایک ہی بینک میں نہیں رکھی بلکہ اس کے دو بینکوں میں الگ الگ اکائونٹ تھے اور اس کی ساری بچت اور بینک اکائونٹ میں اس نے اپنے بیٹے سکھدیو کو اپنا “nominee” بنا رکھا تھا۔ پولیس اب اس فقیر کے بیٹے سے رابطہ کر کے اس کو اطلاع کر رہی ہے۔
قارئین مذہب اسلام میں ضرورت مندوں، مستحقین اور مقروض افراد کی مدد کی ترغیب دلائی گئی ہے لیکن خوددار ضرورت مند، مستحق اور مقروض افراد محنت کرنے کے بعد کبھی اضافی رقم طلب کرتے ہیں تو دنیا ان کو ہزار قسم کے طعنے سناتی ہے اور لوگوں کو ہوٹل میں ٹیبل صاف کرنے والے نوجوان کو دو روپئے اضافی ٹپ دینا بوجھ لگتا ہے۔ وہی لوگ ہوٹل کے باہر کھڑے ڈھونگی اور کام چور فقیروں کا ڈرامہ کرنے والوں کو دس روپئے بھی دینا گوارہ کر لیتے ہیں۔
ہمارے سماج میں کار خیر سے مراد مانگنے والے کو دینا سمجھا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں محنت کر کے ایمانداری سے کمانے والوں کی ہمتیں ٹوٹتی جارہی ہیں۔ آٹو والا اگر کرایہ سے زائد رقم مانگے تو ہم اس کی کمائی کو حرام سے تعبیرر کرتے ہیں جبکہ آٹو والا تو محنت کرنے کے بعد ٹریفک میں کافی دیر تک پھنسنے کے سبب خرچ ہونے والے پٹرول کا حساب پوچھ رہا تھا۔ مگر گھر کے باہر لائوڈ اسپیکر لگاکر اعلان کرنے والے صحت مند کو بھی ہم وہیل چیئر پر بیٹھا دیکھ کر کبھی سوال نہیں کرتے۔ اس سوال کا جواب تو اہل علم ہی دیں گے کہ ضرورت مند کی مدد کرنے سے پہلے ضرورت مند کے متعلق تحقیق کتنی ضروری ہے لیکن عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ڈھونگی فقیروں اور ڈرامہ باز مانگنے والوں کے بجائے حقیقی ضرورت مندوں، مستحقین اور قرض داروں کی مدد کریں۔
5؍ اکتوبر 2019ء کو اخبار انڈین ایکسپریس نے ممبئی کے رہنے والے ایک ایسے جوڑے کے بارے میں خبر شائع کی جنہوں نے اپنے گھر کام کرنے والی خادمہ کی مدد کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
تفصیلات کے مطابق اس میاں بیوی کے گھر کام کرنے والی خادمہ ضرورت مند بھی تھی اور مالی طور پر پریشان بھی لیکن خود دار اتنی کہ کسی کا عطیہ لینے تیار نہیں۔ ایسے میں اس میاں بیوی نے اپنے گھر کی خادمہ کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔
انکوش اور اشونی کے گھر کام کرنے والی خادمہ کا شوہر پہلے تو بیمار ہوا اور پھر فالج کے سبب کسی طرح کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ انکوش اور اشونی نے جب دیکھا کہ ان کے گھر کام کرنے والی خادمہ پریشان ہے تو انہوں نے اس کی خود داری اور محنت کر کے کھانے کی عادت کو دیکھ کر فیصلہ کیا کہ وہ اپنی نوکرانی کی مدد کریں گے۔ پیسوں سے نہیں بلکہ خادمہ کو پیسے کمانے میں مدد کریں گے۔ چونکہ وہ لوگ جانتے تھے ان کی کام والی اچھا پکوان کرتی ہے تو انہوں نے اس سے کھانا پکانے کا کام لیا اور اس کے تیار کردہ کھانے کو خود ایک اسٹال لگاکر بیچنا شروع کیا۔ یوں وہ میاں بیوی جو خود دن میں ملازمت کرتے ہیں اپنے ہاں کام کرنے والی ضرورت مند خاتون کی مد کے لیے روز صبح چار بجے سے ساڑھے نو بجے تک سڑک کنارے اسٹال لگاکر اس کے تیار کردہ ناشتہ فروخت کرنے لگے اور وہ خود دار خادمہ بھی 10 پندرہ دنوں میں اس فوڈ اسٹال سے ہونے والی آمدنی سے بڑی خوش ہوئی کہ اس کو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا بھی نہیں پڑا اور گھر کے خرچ اور شوہر کے علاج کے پیسے بھی جمع ہونے لگے۔ فیس بک پر اس کارخیر کی خبر کچھ اس طرح پھیلی کہ لوگ دور دور سے آکر اس فوڈ اسٹال پر کھانے لگے اور یوں ایک ضرورت مند کی مدد کرنے لگے۔
کیا آپ کسی ضرورت مند کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو بہتر طریقہ ہے کہ آپ اس کو وہ طریقہ سکھادیں جس کے بل پر وہ روزانہ اپنی کمائی خود کرسکے۔ کسی کو ایک دن مدد کردینا اس سے بہتر ہے کہ اس کو اپنی مدد آپ کرنا سکھادیں۔
مدد کریں آپ مگر ضرورت مند کی اور ضرورت مند کون ہے اس کی تحقیق و تصدیق کرنا آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے سماج کے ضرورت مندوں، مستحقین اور لاچار و مجبوروں کی مدد کرنے والا بنائے اور ان سب کی مدد سے پہلے تصدیق کرنے کی بھی توفوفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)٭
sarwari829@yahoo.com