مرکزی حکومت مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتیاں کیوں نہیں کرتی؟

   

روش کمار
ہمارے ملک میں انتخابات کے دوران اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مختلف ذات پات اور برادری کے لیڈر ناراض ہوتے ہیں۔ دوسری پارٹیوں میں شامل ہونے کے بارے میں سوچتے ہیں اور پھر انہیں منانے کیلئے وزراء اور دوسرے اہم سینئر قائدین کی قطاریں لگی ہوتی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ملازمتوں کے خواہاں طلباء جب ناراض ہوجاتے ہیں تو کوئی انہیں ناراض کیوں نہیں سمجھتا؟ ان کے ہاسٹلوں تک کوئی وزیر اور سینئر لیڈر منانے کیلئے نہیں جاتا۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ کیا ہمارے ملک کے عوام صرف مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ناراض ہوتے ہیں یا ان کے غصہ اور برہمی کو ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر بھڑکایا جاتا ہے تاکہ اہم مسائل کو چھپایا جائے۔ اب یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہمارے میڈیا نے اب یہ قبول کرلیا ہے کہ لوگ معاشی مسائل، مہنگائی (آسمان کو چھوتی قیمتوں اور بیروزگاری سے ناراض نہیں ہیں؟) اگر ناراض نہیں ہوتے تو پھر ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر عوام کے غیض و غضب اور غصہ و برہمی کو نمایاں کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا ہمارے ملک کے بیروزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ فارم پُر کرنے کے تین سال تک امتحان کا انتظار کریں گے، برباد ہوجائیں گے لیکن غصہ صرف ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر نکلے گا؟ نوجوانوں کو ان لوگوں سے ہی ملازمتیں مانگنی چاہئے جو مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر ناراض ہوتے ہیں۔ تین چار دن پہلے ہندی اخبارات کی سرخیاں بتارہی ہیں کہ سیاست دانوں اور میڈیا کی ترجیحات کیا ہیں، کچھ سرخیوں میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو ’’چوہدری ‘‘ کہا گیا ہے تو کچھ میں امیت شاہ کا حوالہ دے کر یہ پوچھا گیا ہے کہ ان کا تو جاٹوں سے 650 سال کا رشتہ ہے۔ 650 سال پرانا یہ رشتے کس بنیاد پر نکالے جارہے ہیں۔ خود جینت چوہدری نے ٹوئٹ کرکے امیت شاہ کی جانب سے ربط پیدا کئے جانے کی تردید کی۔ اس خبر کو جھوٹی خبر کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کون سی بڑی خبر ہے جس نے امیت شاہ کی پیشکش ٹھکرائی یا وہ جس نے اسے قبول کیا؟ جاٹوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے امیت شاہ کو کیرانا جانا چاہئے، کبھی کوچنگ سنٹر میں بھی جانا چاہئے جہاں نوجوان نوکری کی خواہش اور امید میں اپنی جوانی خرچ کررہے ہیں۔
ہمارے ساتھی سورو شکلا نے 22 ڈسمبر کو ایک رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ مرکزی حکومت امتحان کے انعقاد میں تین تین برس صرف کررہی ہے۔ مثال کے طور پر اسٹاف سلیکشن کمیشن نے 2018ء میں 60,000 مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتی کی تھی، لیکن اس میں صرف 55,000 تقررات ہوئے اور اس عمل میں بھی تین سال کا عرصہ لگ گیا۔ اگر 5,000 جائیدادیں مخلوعہ رہیں تو ان پر بھرتیوں کیلئے پورے ملک میں ایس ایس سی جی ڈی کے امیدوار دہلی آئے تاکہ حکومت ان مخلوعہ جائیدادوں پر بھی بھرتی کرے۔ وزیر لیبر سے لے کر وزیر پرسونل تک کسی نے ان سے ملاقات کرنا گوارا نہیں کیا۔ اس طرح کے سوالات ریلوے میں ملازمتیں حاصل کرنے کے خواہاں طلبہ کے ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ ان ملازمتوں کیلئے ایک کروڑ درخواست فارمس بھرے جاچکے ہیں۔ یعنی جس امتحان کا تعلق ایک کروڑ امیدواروں سے ہو، کیا اس میں اتنا وقت لگے گا، طلبہ کا کہنا ہے کہ درمیان میں بھرتی کے عمل میں تبدیلی لائی گئی جبکہ متعلقہ وزیر کہتے ہیں کہ درمیان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، ایسے میں یہ سوال پوچھا جانا چاہئے کہ کیا طلبہ من گھڑت باتوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے؟
وزیر ریلوے اشونی وشنو کا کہنا ہے کہ ایک کروڑ سے زیادہ درخواستیں ایجنسی کی خدمات حاصل کرنے میں وقت لگا۔ 6 ماہ سے زائد کا عرصہ لگا، پھر کورونا کی لہر نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ عمل ڈسمبر میں شروع کیا گیا تھا۔ ہماری مودی حکومت ملک سے بیروزگاری ختم کرنے کی باتیں اور بلند بانگ دعوے کرتی ہے۔ 2015ء سے پہلے امیدواروں پر دس گنا پی ٹی چارج کیا گیا۔ 2019ء میں یہ 20 مرتبہ کیا گیا کہا گیا لیکن طلبہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ 20 لاکھ امیدواروں کا نتیجہ نہیں آیا۔ دوسری طرف ایک ہی طالب علم کا نام مختلف درجوں میں پایا گیا جبکہ اس کا انتخاب ایک جائیداد پر ہوگا، اس سے دوبارہ جائیدادیں خالی ہوجائیں گی۔ ہماری حکومت، پارلیمنٹ میں اور پارلیمنٹ کے باہر بار بار یہی کہہ رہی ہے کہ کورونا کی پہلی، دوسری اور موجودہ تیسری لہر کی وجہ سے بھرتی امتحان کا انعقاد نہیں کیا جاسکا لیکن آپ تمام 2020ء کی خبریں نکال کر دیکھیں۔ انجینئرنگ، میڈیسن اور سی بی ایس سی کے طلبہ بھرتی کے امتحان کو لے کر عدالت سے رجوع ہوئے تھے۔ وہاں حکومت نے دلیل پیش کی تھی۔ امتحان ہوسکتا ہے۔ امتحانات کے انعقاد کی طرح ایک نیا سسٹم بنایا گیا۔ عدالت کا حکم بھی آیا اور امتحان بھی ہوا، پھر ان طلبہ کو تین برس انتظار کیوں کرنا پڑا۔ ان کیلئے کوئی ایسا طریقہ کیوں نہیں بنایا گیا کہ ان کی جوانی کے تین اہم سال ضائع ہونے سے بچ جائیں۔ موجودہ وزیر ریلوے کہتے ہیں کہ امتحان کی ایجنسی کا فیصلہ کرنے میں وقت لگا! اس میں وقت کیوں لگا؟ پھر جنوری 2019ء میں کس بنیاد پر بھرتی بتائی گئی؟ تو الیکشن کیا تھا؟ دو سال بعد فروری 2021ء میں وزیر ریلوے پیوش گوئل نے راجیہ سبھا میں جواب دیا کہ امتحان کے انعقاد کیلئے ایجنسی کا تقرر کیا گیا ہے۔ نوجوانوں کے دو برسوں کی قیمت کس نے ادا کی ہے، ان طلبہ نے وزارت ریلوے یا پھر وزیر ریلوے نے؟ دیگر طلبہ کے ریلوے امتحان سے متعلق مختلف سوالات ہیں کسی کو میڈیکل پر اعتراض ہے تو کسی کو کچھ اور اعتراض۔
وزیر ریلوے اشونی وشنو کہہ رہے ہیں کہ مودی حکومت کا ارادہ زیادہ سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنا ہے۔ اب یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ارادہ کی بجائے تعداد یعنی نمبر بتائیں، کتنی ملازمتیں فراہم کی ہیں اور کتنی نوکریاں دینے جارہے ہیں۔ ہم آپ کو حکومت کے اس ارادہ کا حساب کتاب دے رہے ہیں جو خود حکومت نے پارلیمنٹ میں دیا ہے۔ 2 ڈسمبر 2021ء کو وزیر پرسونل جیتندر سنگھ نے راجیہ سبھا میں بتایا کہ ریلوے رکروٹمنٹ بورڈ نے 2016ء سے 2020ء کے درمیان صرف 24,945 ملازمتیں دی ہیں۔ یہ ریلوے کا پانچ سالہ ریکارڈ ہے۔ 2019ء میں انتخابات نہ ہوتے تو اتنی بھرتیاں بھی نہ ہوتی۔ یہ ریکارڈ اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ انتخابات کے سال میں آپ جتنی زیادہ ملازمتوں کی بات کریں گے۔ آپ کے بچوں کیلئے اتنی ہی زیادہ ملازمتیں پیدا ہوں گی، حالانکہ بھرتی کبھی نہیں ہوں گی۔ ذات پات کی بات کرتے ہوئے دوچار لیڈر اپنا کیریئر بنائیں گے اور آپ کے بچوں کے خوابوں کا سودا کردیں گے۔ جہاں تک مخلوعہ جائیدادوں پر بھرتی کا سوال ہے، ملازمتیں نہ ملنے کی وجہ سے بہت سے طلبہ کی عمر ڈھل جاتی ہے اور ان کا کیریئر برباد ہوجاتا ہے۔یہ سب کچھ میڈیا کی بے حسی کے نتیجہ میں ہورہا ہے۔ اگر میڈیا ایک ماہ تک روزگار کی بات کرے تو اس ملک کے لاکھوں نوجوانوں کو نوکریاں ملیں گی کیونکہ مرکزی حکومت کے پاس 8 لاکھ سے زیادہ نوکریاں ہیں۔