مرکز میں تلنگانہ کے ارکان پارلیمنٹ کا اہم رول ہوگا: کے ٹی آر

   

کوئی پارٹی تنہا حکومت تشکیل نہیں دے پائے گی، کریم نگر میں ٹی آر ایس کے انتخابی اجلاس سے خطاب

کریم نگر۔/6 مارچ، ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) کریم نگر سے چیف منسٹر کے سی آر کی بہت ساری یادیں وابستہ ہیںجن کا تذکرہ وہ اکثر کرتے رہتے ہیں اور میری بھی بچپن کی بہت سی یادیں اس ضلع سے وابستہ ہیں۔ میری پیدائش یہیں دواخانہ میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم بھی یہیں سے حاصل کیا ہوں۔ ان خیالات کا اظہار ٹی آر ایس کارگذار صدر مسٹر کے ٹی آر نے ایس آر آر کالج میدان کریم نگر میں پارلیمانی انتخابات سے متعلق ٹی آر ایس کے پہلے مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جس کی صدارت رکن اسمبلی گنگولا کملاکر نے کی۔ اس موقع پر کے ٹی آر نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ تلنگانہ جدوجہد تحریک کا پہلا بڑا جلسہ عام اسی مقام پر منعقد ہوا تھا۔ پھر تحریک نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا اور اس میں شدت پیدا ہوئی اور دہلی کے ایوانوں میں اس کی گونج سنائی دینے لگی تھی، یہاں سے ہی کے سی آر بانی و صدر ٹی آر ایس نے پارلیمنٹ میں 2004 میں کامیابی حاصل کرکے قدم رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج کا یہ اجلاس عنقریب منعقد شدنی پارلیمانی انتخابات میں ریاست میں 16 نشستوں پر بھاری اکثریت سے کامیابی کے منصوبہ عمل اور تیاری کے طور پر منعقد کیا گیا ہے۔ کے ٹی آر نے کہا کہ کریم نگر سے کے سی آر کو کافی لگاؤ ہے اور یہ ایقان ہے کہ جو کام بھی کریم نگر میں شروع ہوتا ہے وہ یقینی طور پر کامیابی کی منزل پر پہنچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 7 ڈسمبر ایک تاریخی دن ہے جب ٹی آر ایس نے اسمبلی کی 85 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور دوبارہ حکومت قائم کی۔ یہ سب عوام کے بھروسہ کا نتیجہ ہے اور کے سی آر کی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔ اب اسی طرح تلنگانہ کے 16 پارلیمانی نشستوں پر بھی ٹی آر ایس ارکان کو کامیاب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجنا ہے تاکہ مرکزی حکومت کی تشکیل میں اہم کردار نبھایا جاسکے۔

جیسا کہ آپ سبھی کو معلوم ہے کہ عنقریب منعقد شدنی پارلیمانی انتخابات ملک کی تاریخ میں ایک اہم موڑ اختیار کرنے والے ہیں۔ کے ٹی آر نے ادعا کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کو اور نہ ہی راہول گاندھی کی زیر قیادت کانگریس کو اتنی نشستیں مل ہی نہیں سکیں گی کہ وہ مرکز میں تنہا حکومت تشکیل دے سکیں۔ عوام نے دیکھ لیا ہے کہ نریندر مودی اور راہول گاندھی دونوں ناہل ہیں۔ ایک رافیل طیارے اور دوسرا بوفورس معاملہ میں ملوث ہیں۔ اس لئے مرکز میں کوئی بھی پارٹی حکومت تشکیل دینا چاہے گی تو اس میں تلنگانہ کے 16 ارکان پارلیمنٹ کا اہم کردار ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کالیشورم آبی پراجکٹ کو قومی درجہ اور مشن بھگیرتا، مشن کاکتیہ کیلئے قرض اور فنڈس کی منظوری کیلئے مودی جی سے ملنے کئی مرتبہ دہلی کے چکر لگائے گئے لیکن ایک روپیہ بھی منظوری نہیں دی گئی۔ اگر مرکزی حکومت میں ہمارا حصہ ہوگا تو تلنگانہ کی ترقی اور یہاں کے جائز حقوق کیلئے ہم مرکزی حکومت کو گردن جھکانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اگر تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے 16 ارکان پارلیمنٹ کامیاب ہوجائیں گے تو دیگر پارٹیوں سے وابستہ 70 تا 80 ارکان پارلیمنٹ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج پورے ملک میں تلنگانہ کی ترقی کی مثال دی جارہی ہے، ہر ایک کی زبان پر کے سی آر کے مثالی پراجکٹوں اور مثالی فلاحی اسکیموں کا تذکرہ ہے۔ 71 سال تک مرکز پر کانگریس اور بی جے پی کا اقتدار رہا ہے ان کی کارکردگی آپ دیکھ چکے ہیں اور ساڑھے چار سال تلنگانہ میں کے سی آر کی کارکردگی بھی آپ کے سامنے ہے۔ انہوں نے 24 گھنٹے برقی سربراہی اور مختلف طبقات کیلئے فلاح و بہبود کے پروگراموں کا بھی تذکرہ کیا۔ انہوں نے ٹی آر ایس قائدین و کارکنوں کو مشورہ دیا کہ آپ زمینی حقائق پر توجہ دیں، ٹی آر ایس کی اسکیمات کا ذکر کریں، 85 فیصد رائے دہی کو یقینی بنائیں اور اس طرح کام کریں کہ 70 تا75 فیصد ووٹ ٹی آر ایس کو حاصل ہوں۔ کریم نگرمیں پارلیمانی امیدوار ونود کمار کو 5 لاکھ ووٹ کی اکثریت سے کامیاب کرنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے سابق رکن پارلیمنٹ پونم پربھاکر پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ نریندر مودی اور راہول گاندھی کو بری طرح شکست ہوگی۔ یہ ہمارا نہیں بلکہ سیاسی دانشوروں کا سروے ہے۔ انہوں نے پھر ایک بار عوام پر زور دے کر کہا کہ یہ پارلیمانی انتخابات آئندہ پانچ سال کیلئے آپ کی قسمت کا فیصلہ ہوں گے۔ اس لئے سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالیں اور تلنگانہ میں 16 پارلیمانی نشستوں پر ٹی آر ایس امیدواروں کو کامیاب کریں۔ قبل ازیں وزیر داخلہ محمد محمود علی، وزیر صحت ایٹالہ راجندر کے علاوہ لکشمی کانت راؤ، کوپولا ایشور، کیشوراؤ وغیرہ کے ساتھ کریم نگر حلقہ رکن پارلیمنٹ نے بھی مخاطب کیا۔ کے ٹی آر کی آمد پر کریم نگر مانیر ڈیم سے ایس آر آر کالج جلسہ گاہ تک سڑکوں پر گلابی بیانر، جھنڈیاں لگادی گئیں۔ جنکشنوں کو پوری طرح سے گلابی پرچموں سے سجایا گیا۔ صبح ساڑھے دس بجے کا وقت دیا گیا تھا لیکن کے ٹی آر کی آمد 12 بجے کے بعد ہوئی اور 2 بجے جلسہ کا آغاز ہوا۔