مرکز نظام الدین کے معاملے کو مذہبی رنگ دینا قابل مذمت : مولانا محمود مدنی

,

   

نئی دہلی۔ جمعیت علماء ہند کے جنر ل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے مرکز نظام الدین (دہلی) کے تعلق سے منفی پروپیگنڈااور کرونا وائرس جیسی ہلاکت خیز بیماری سے جڑے معاملے کو مذہبی رنگ دینے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب کہ پوری دنیا اور خاص طور سے ہمارا وطن اس مصیبت سے نبرد آزما ہے، ہمیں زیادہ حساس اور ذمہ دار انسان کے طور پر خود کو پیش کرنا چاہیے اور متاثر شخص چاہے کسی بھی ذات اور قبیلہ سے تعلق رکھتاہو، اس کے ساتھ بلا تفریق کھڑا ہونا چاہیے۔لیکن صد افسوس کہ جب ایسے حالات کے شکار افراد مرکز نظام الدین سے وابستہ پائے گئے تو اسے چند میڈیا ہاؤس اور کچھ غیر ذمہ دارعناصر نے مذہبی شدت پسندی سے جوڑنے اور ایک مخصوص قوم کو مورد الزام اور مجرم ٹھہرانے کی کوشش شروع کردی۔حالاں کہ وہاں سے جو کچھ باتیں آرہی ہیں، اس کی ذمہ داری کسی ایک پر عائد نہیں جاسکتی، بلکہ پولس انتظامیہ بھی یکساں طور سے جوابدہ ہے۔ اس سے زیادہ واضح بات یہ ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن اچانک کیا گیا، جس کی وجہ سے ایسے حالات ہوئے کہ جو جہاں تھا، اسے وہیں ٹھہر نا پڑا، نکلنے کی راہیں بند ہوگئیں، ایسے میں وہاں سے لوگوں کو نکالنے کی ذمہ داری دہلی سرکار اور پولس انتظامیہ پر تھی، کیوں کہ اس کے بغیر لوگوں کا نکلنا ممکن نہیں تھا۔لیکن پولس انتظامیہ نے غفلت شعاری کا ثبوت دیتے ہوئے وہی کام جو اسے ایک ہفتہ پہلے کرنا چاہیے تھا، اس میں تاخیر کی جس کے نتائج یہاں تک پہنچے۔اس لیے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ جو کوشش 28/مارچ کی شام شروع ہوئی وہ پہلے کیوں نہیں کی گئی؟

مولانا مدنی نے کہا کہ جہا ں تک مسلمانوں اور اس کے دینی و مذہبی اداروں کی بات ہے تو انھوں نے اس بیماری میں سرکار اور صحت عامہ کے محکموں کی ہدایات پر حتی الوسع عمل کیا اور اپنے بیانات اور ہدایات کے ذریعہ لوگوں کو بار بار بیدار کیا، یہاں تک کہ ان کی اپیل پر جمعہ کی نماز میں بھی لوگ اپنے گھروں سے باہر نہیں نکلے۔ملک کے سبھی اسلامی ادارے چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں وہ اس لڑائی میں ملک کے ساتھ کھڑے ہوئے اور کھڑے ہیں اور اسے کسی جبری حکم سمجھ کر نہیں بلکہ اپنی قومی، ذاتی اور مذہبی ذمہ داری تصورکرتے ہیں۔اسی جذبہ کے تحت جمعیۃ علماء ہند نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر اپنی اور اپنی یونٹوں کی طرف سے کرونا وائرس سے ممکنہ طور سے متاثر ہونے والے دس ہزار مریضوں کے لیے آسولیشن /کورنٹائن سینٹرس کے لیے جگہ کی پیشکش کی اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں پریشان حال لوگوں کے لیے ملک گیر سطح پر جمعیۃ ریلیف کمیٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔نہ صرف جمعیۃ علماء ہند بلکہ ملک کی دیگر سبھی جماعتیں متاثرین کی امداد اور بیماری سے متعلق معاملات میں پیش پیش ہیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیت علماء ہند ایسے حالات میں اہل وطن، ذمہ دارو باشعو ر افراد اور میڈیا سے یہ دردمندانہ اپیل کرتی ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور مسلمانوں کے خلاف مذموم پروپیگنڈا کرنے والوں کوروکیں۔ بلاشبہ یہ انسانیت سے وابستہ مسئلہ ہے، جس میں کسی بھی طرح کی عصبیت اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے کے بجائے متفقہ طور سے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور ساتھ دینے کی ضرورت ہے اور یہی اس ملک کی عظیم روایت بھی رہی ہے۔ اگرایسے وقت میں فرقہ پرستی یا سیاسی و مذہبی منافرت کو ہوادی گئی اس سے بڑاگناہ نہیں ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ نظام الدین کے واقعہ کے بعد ملک بھر میں اس سے وابستہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کی ضرورت ہے نہ کہ ان کو مجرم بنا کر پیش کرنے کی، کیوں کہ اس سے اس مصیبت کے خلاف ہماری قومی جد وجہد متاثرہوگی۔