مزدوروں کا چپ چاپ چلنے والا مارچ

   

روش کمار

یہ طویل مارچ نہیں ہے اس لئے اس کے خلاف کوئی سیاسی مزاحمت نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا گروپ نہیں ہے جو علی الصبح کی چہل قدمی کے لئے جارہا ہے اس لئے جسمانی کسرت ایک کارروائی نہیں ہے۔ یہ کوئی مذہبی یاترا نہیں ہے اس لئے مذہبی کارروائی نہیں ہے۔ مزدوروں کا پیدل چلنا جمہوریت میں ان کے لئے بنائے گئے حقوق سے بیدخل کئے جانے کی کارروائی ہے۔ پیدل چلتے ہوئے وہ نظام کا اتنا ہی جواب دے رہے ہیں کہ ان راستوں پر پیدل چل رہے ہیں جن پر چلنے کی اجازت نہیں ہے۔پیدل چلنے کے یہ مناظر نقل مکانی منظر اس منظر جیسا نہیں ہے جسے لوگوں نے 1947 میں دیکھا تھا۔ آگرہ۔ لکھنو یا سورت ۔ احمد آباد ایکسپریس وے پر پیدل چلتے ان لوگوں کا منظر پہلی بار دیکھا گیا ہے۔ ان شہروں میں انہیں آتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا، ان شہروں سے انہیں کذرتے ہوئے دنیا دیکھ رہی ہے۔
سورت، ممبئی، ناگپور، حیدرآباد ان بڑے شہروں کی مزدور بستیاں بھلے ہی تنگ ہو وہاں نہ پانی ہو نہ ہوا ہو لیکن ان بند کمروں میں ان مزدوروں کی پہچان رہتی تھی جس کے دم پر وہ اس گاوں میں آدمی شمار کئے جانے لگتے تھے جسے وہ کئی سال پہلے چھوڑ آئے تھے۔ زندگی میں جب آپ عزت و احترام پاتے ہیں تھوڑی سے برابری پاتے ہیں اور جب اچانک 24 مارچ لاک ڈاون کے بعد وہ چلی جائے تو آواز چلی جاتی ہے۔ اس لئے میں مزدوروں کے اس مارچ کو چب چاپ چلے جانے والا مارچ کہتا ہوں۔ وہ صدمہ میں ہیں۔
جب مزدور اور اس کا خاندان ہولی اور دیوالی میں اپنے گاوں جاتے تھے تو دور سے ہی ان کے کپڑوں کی چمک سے گاوں میں امید کی روشنی پھیل جاتی تھی کوئی آیا ہے شہر سے کماکر وہاں بچوں کو پڑھارہا ہے۔ گھر میں ٹی وی ہے۔ اب جب کئی ہفتوں تک پیدل چلنے کے بعد وہ اپنے گاوں پہنچیں گے تو کپڑوں کی چمک دمک جاچکی ہوگی، چہرے کی تھکان اور تلوے کے نیچے پڑے چھالوں کو نظروں سے چھپانا مشکل ہو جائے گا۔ یہ سوچ کر ہی وہ کانپ جاتا ہوگا کہ اس حال میں اپنے گاوں والوں کا سامنا نہیں کرسکے گا جہاں وہ کئی سال سے فاتح کی طرح آیا کرتا تھا۔
پیدل چلتے مزدوروں کے سرپر سامان کا جو بوجھ ہے وہ اس کے لئے وزنی اس لئے نہیں ہے کہ اس میں صندوق ہے، گھر کا کپڑا اور برتن ہے جب وہ اس سامان کے ساتھ گھر میں داخل ہوگا تو لوگ دیکھ لیں گے کہ اس کے پاس بس اتناہی ہے۔ اس بار اس کا سامان دیکھا نہیں بلکہ گنا جائے گا۔ اس لئے وہ ایسے وقت نہیں جانا چاہتے کہ کوئی ایسے دیکھے کوئی اس سے بات کرے وہ بار بار ان حکومتوں کے سامنے بے پردہ نہیں ہونا چاہتا جسے وہ (حکومتیں) چالیس دنوں کے بعد بھی نہیں دیکھا۔ اس کی فکر سماج کے سامنے بے پردہ ہو جانے کی ہے۔ اس لئے آپ قومی شاہراہوں پر میڈیا نمائندوں (نامہ نگاروں) سے ان کی بات چیت سنئے وہ نیوز چیانلوں پر نیچے چلنے والے ان TICKERS کی طرح بولتے ہیں جو ایک سطری ہوتی ہے جو خبر ہوتے ہوئے بھی اہم خبر کے لائق نہیں ہوتی۔ ایک ہفتہ سے پیدل چل رہے ہیں ہریانہ سے آرہے ہیں چمپارن جار رہے ہیں گود میں بچے ہیں پیٹ میں کھانا نہیں ہے، جیب میں کرایہ نہیں ہے بات ختم اس کی اذیت ہستی ہستی سیاست تو ہو ہی نہیں سکتی۔
پیدل چلنے والے صرف راستہ تلاش کررہے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ کونسا راستہ ہے جس پر پولیس کی نظریں نہیں ہوگی۔ سورت میں رات کے وقت مزدوروں کا دستہ ایسے ہی انجان راستوں کے سہارے نکل پڑتا ہے وہ بس چلتا ہی ہے۔ اسے اب ہفتہ کی پرواہ نہیں ہے۔ اس نے کیلومیٹر میں فاصلہ کا حساب لگانا چھوڑ دیا ہے۔ رات کے وقت اکا دکا کاروں کی ہیڈلائٹ کی روشنی میں مزدوروں کی بیویوں کی ساڑیوں کا رنگین بارڈر چمک اٹھتا ہے وہ اس روشنی سے سہم جاتی ہیں۔ موٹر کار کی طرف دیکھتی بھی نہیں نہ ان کا شوہر دیکھتا ہے کہ شاید کوئی بٹھالے گا کچھ دور تک چھوڑ دے گا! انہیں صرف راتوں کا ہی نہیں بلکہ کئی دنوں کا اندھیرا چاہئے تاکہ وہ چپ چاپ اپنے گاوں پہنچ سکیں۔ ہندوستان کی جمہوری سیاست میں کئی جماعتوں کے رہنماوں کی تصویر اور جھنڈا اٹھاکر پدیاترا کی ہے۔ آج وہ پدیاترا کے لئے نکلنے کے لئے مجبور ہوئے تو کوئی سیاسی جماعت ان کے کام نہیں آئی۔ دہلی سے بیان جاری ہوتے رہے جس دلی کو چھوڑ کر وہ بہار کے لئے نکل پڑے۔ وہ عورت میری آنکھوں میں کسی ناختم ہونے والے سوال کی طرح چبھ گئی ہے جس کی گود میں ایک بچہ ہے۔ دوسرے ہاتھ میں ٹرالی والا لگیج بیاگ ہے اس کی ساڑی کا پلو قومی شاہراہ کی ہوا میں اڑا جارہا ہے۔ وائرل ویڈیو کا کلوز اپ جب تک پاوں پر رہتا ہے یہ بھرم رہتا ہے کہ وہ کوئی بین الاقوامی سفر ہے جیسے ہی کیمرہ اس کے چہرہ پر جاتا ہے پتہ چلتا ہے کہ وہ پیدل چلنے والے مزدور ہیں۔
یہ منظر بتا رہا ہے کہ مزدور کی بیوی مائگرینٹ نہیں ہے وہ جہاں سے آئی تھی وہیں کو جارہی ہے لیکن جس مقام پر آئی تھی اس مقام سے ہمارا ضمیر ہماری جدیدیت، ہمارا جوش و جذبہ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ میری مانئے جو ممبئی سورت اور دہلی کو پیدل چھوڑگئے ہیں وہ مائگرینٹس نہیں ہیں تارک وطن وہ ہیں جو ہاوزنگ سوسائٹی اور رسیڈنٹ ویلفیر کے لئے بنائی گئی گیٹ کے اندر بند ہیں۔ جو دور جاچکے ہیں اپنے ہی لوگوں کی تکلیف اور ان کی کہانی سے دور مزدور نہیں گئے ہیں بلکہ ہمارے میٹرو شہر دور چلے گئے ہیں۔