مزدوروں کی مدد ضروری

   

غمِ حیات کی پہنائیاں کسے دکھلائیں
زمانہ اپنی ہی وسعت سے سرگراں ہے ابھی
مزدوروں کی مدد ضروری
کورونا وائرس کی وجہ سے سارا ہندوستان بند ہوکر رہ گیا ہے ۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاون اور شٹ ڈاون کردیا گیا ہے ۔ عملی طورپر دیکھا جائے تو دنیا تھم سی گئی ہے ۔ جو جہاں تھا وہیں رک گیا ہے اور کوئی اپنے شہروں یا اپنے گھروں تک پہونچنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے لاک ڈاون کے دوران عوام اور غریبوں کی مدد کیلئے کچھ اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ریاستی حکومتیں بھی اپنے اپنے طور پر کچھ اقدامات کا اعلان ضرور کر رہی ہیں لیکن ایک تاثر ابھر کر آیا ہے کہ شائد حکومتوں نے سارے لاک ڈاون اور اپنے اقدامات و احتیاط کے دوران ایک پہلو پر غور ہی نہیں کیا یا پھر حکومتوں کو اس پہلو پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں مل پایا ۔ یہ پہلو تارکین وطن مزدوروں کا ہے ۔ ہندوستان کے ہر شہر میں ایسے مزدور اور دوسرے کاریگر یا ملازمت پیشہ افراد موجود ہیں جو تلاش معاش میں اپنے مقام سے سفر کرکے دوسرے شہروں یا دوسری ریاستوں میں پہونچے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر جو یومیہ اجرت پر کام کرنے والے غیر مقامی مزدور ہیں وہ اس لاک ڈاون کی وجہ سے بے طرح مسائل کا شکار ہیں اور ان کی جانب حکومتوں نے خاطر خواہ توجہ نہیں کی ہے یا پھر حکومتوں کو اس کا موقع ہی نہیں مل پایا ہے ۔ لاک ڈاون کے ابتدائی چند ایام تو کسی طرح ان مزدوروں نے گذار ہی لئے لیکن جب وقت کی مشکلات نے سختی دکھائی تو ان مزدوروں نے اپنے آبائی مقام کو روانگی ہی ایک واحد راستہ سمجھا ۔ سفر کے تمام ذرائع چونکہ بند کردئے گئے ہیں ایسے میں یہ پیدل ہی اپنے مقامات کیلئے روانہ ہونے شروع ہوگئے تھے اور چھوٹے چھوٹے جتھے جب ریاستی سرحدات پر پہونچنے لگے تو ان کی تعداد سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تک جا پہونچی اور اس وقت حکومتوں کو ان مزدوروں کا خیال آیا ۔ حالانکہ کچھ مقامات پر ان مزدوروں کیلئے بھی کچھ راحت کے کام اور اعلان ضرور ہوئے ہیں لیکن جتنی تعداد میں یہ لوگ ہیں ان کیلئے یہ اقدامات بالکل ناکافی ثابت ہوئے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں کی سرحدات پر جو لوگ جمع ہوئے ہیں ان کی تعداد ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے ۔
یومیہ اجرت پر کام کرتے ہوئے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ بھرنے والے یہ مزدور وہ طبقہ ہیں جن کی محنت نے سماج کی بنیادیں مستحکم کی ہیں۔ ان کی محنت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور یہی وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ لا پرواہی کا شکار ہوگیا ہے اور اسی طبقہ کی جانب کسی نے بھی توجہ نہیں دی یا اگر کسی نے توجہ دی بھی ہے تو اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دی جانی چاہئے تھی ۔ اب جبکہ صورتحال ہا تھ سے نکلتی نظر آنے لگی ہے تو مختلف حکومتوں کی جانب سے ان کیلئے اقدامات کا اعلان ہو رہا ہے ۔ سب سے پہلے دہلی کی اروند کجریوال حکومت نے ان تعمیراتی مزدوروں کیلئے پانچ ہزار روپئے تک مدد کا اعلان کیا لیکن یہ واضح نہیں ہوا تھا کہ آیا اس میں دوسری ریاستوں سے آئے مزدوروں کا بھی احاطہ کیا جائیگا یا نہیں۔ اب جبکہ یہ مزدور حالات کی وجہ سے اپنے اپنے مقامات کو جانے کیلئے نکل پڑے ہیں تو سبھی کی توجہ ان کی جانب مبذول ہوئی ہے ۔ دہلی میں ان کے قیام اور کھانے کے انتظامات کا اعلان ہوا ہے ۔ چیف منسٹر مہاراشٹرا نے بھی غیر مقامی مزدوروں سے کہا ہے کہ وہ اپنے آبائی مقامات کی سمت کوچ نہ کریں ۔ ان کی گذر بسر کا انتظام کیا جائیگا ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے بھی اس سلسلہ میں پہل کئے جانے کی ضرورت ہے ۔ تمام ریاستوں کیلئے رہنما خطوط جاری کرتے ہوئے ان مزدوروں کے قیام اور ان کی خوارک کا انتظام کیا جانا چاہئے ۔
ہندوستان کی کچھ ریاستیں ایسی ہیں جہاں کے باشندے تلاش معاش میں نقل مقام کرتے ہیں۔ ان میں اترپردیش ‘ بہار ‘ مغربی بنگال ‘ اوڈیشہ اور دوسری ریاستیں بھی شامل ہیں۔ خود تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بھی ایک دوسری ریاست میں کام کرنے والے مزدوروں کی خاطر خواہ تعداد پائی جاتی ہے ۔ ایسی صورتحال میں ملک کی تمام ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ان مزدوروں کی جانب فوری توجہ کرے ۔ ان کے قیام اور ان کی خوراک کا کسی رکاوٹ کے بغیر انتظام کیا جائے ۔ اس بات کو یقینی بنانا ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جہاں کوئی کورونا وائرس کی وجہ سے فوت نہ ہو تو وہیں بھوک مری اور فاقہ کشی سے بھی کسی کی جان نہ چلی جائے ۔ ہر مزدور کا تحفظ کرنا ہر حکومت کا اولین فریضہ ہے ۔