مسئلہ کشمیر کی حقیقت

   

رام پنیانی
دستور کی دفعہ 370 کی تنسیخ کے ذریعہ یہ دعوے کئے گئے کہ کشمیر کو حاصل خصوصی موقف کے خاتمہ سے متعلق حکومت کا قدم کشمیری پنڈتوں کو امن و امان اور سلامتی کا ماحول فراہم کرے گا، ساتھ ہی ان بے بس کشمیر پنڈتوں کیلئے راحت کا باعث بنے گا لیکن 8 کشمیری پنڈتوں کے قتل کے بعد حکومت کی قلعی کھل گئی اور اس کے بلند بانگ دعوے ناکام ثابت ہوئے اور یہ واضح ہوگیا کہ حکومت کا اقدام غلط تھا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ دستور کی دفعہ 370 کے ذریعہ کشمیر کو خصوصی موقف عطا کیا گیا تھا۔ اس موقف کو منسوخ کرنے سے پہلے حکومت نے نوٹ بندی کا نفاذ عمل میں لایا اور اس وقت بھی مودی جی نے بلند بانگ دعوے کئے، ان دعوؤں میں سے ایک دعویٰ یہ تھا کہ نوٹ بندی کے نفاذ سے جموں و کشمیر میں دہشت گردانہ تشدد پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور وادی میں عسکریت پسندی کا خاتمہ ہوجائے گا، لیکن اگر آپ دیکھیں تو وادی کشمیر جن مسائل سے پہلے دوچار تھی، آج بھی اُن ہی مسائل سے دوچار ہیں۔ نوٹ بندی کے نفاذ اور آرٹیکل 370 کی منسوخی بھی امن و امان کو واپس نہیں لاسکے۔ اس قسم کی صورتحال میں اب بی جے پی کے سب سے پسندیدہ لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو کے نام کو ہر ناکامی، پریشانی اور ہر صورتحال کیلئے ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے اور بی جے پی حکومت نے اسے اپنا وطیرہ بنالیا ہے۔ آپ تمام دیکھ سکتے ہیں کہ وزیراعظم سے لے کر مرکزی وزراء اور بی جے پی قائدین اپنی ناکامیوں کو پنڈت جواہر لال نہرو کے سرتھوپ دیتے ہیں۔ کشمیر کی حالت کیلئے بھی وہ پنڈت جی کو ہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور دے رہے ہیں۔ مرکزی وزیر کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ پنڈت نہرو کی غلطیوں کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے اور ان کی ہی غلطیوں اور غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں مسئلہ کشمیر پیدا ہوا ہے۔ اس معاملے میں چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ کہاں پیچھے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے کرن رجیجو سے دو قدم آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کردیا کہ آرٹیکل 370 پر عمل آوری دہشت گردانہ تشدد کی جڑ ہے اور بی جے پی نے اس جڑ کو اُکھاڑ پھینکا ہے۔ ایک بات ضرور ہے کہ آپ نے اپنی غلطیوں و خامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے نہرو کو ذمہ دار قرار دیا لیکن حقیقت چھپنے والی نہیں۔ کانگریس کے جنرل سیکریٹری جئے رام رمیش نے کرن رجیجو کے بیان کو حقیقت سے بعید قرار دیا اور رجیجو کو ایک ایسے شخص سے تعبیر کیا جو تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے اور ہندوستان کی تاریخ سے واقف نہیں، جہاں تک کرن رجیجو کا تعلق ہے۔ ان کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ کشمیر کے مہاراجہ ہندوستان میں کشمیر کے انضمام کو لے کر لیت و لعل سے کام لیتے رہے۔ ان کے خیال میں اصل مسئلہ پنڈت نہرو نے پیدا کیا۔ سچائی یہ ہے کہ جب ہندوستان نے آزادی حاصل کی تب دیسی ریاستوں یعنی راجہ رجواڑوں اور نوابوں کی ریاستوں کو اس بات کا اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں ضم ہوجائیں یا آزاد رہیں۔ ایسے میں مہاراجہ ہری سنگھ نے جو کشمیر کے حکمراں تھے، آزاد رہنا پسند کیا۔ ہندوستان کے ساتھ انضمام سے انکار سے متعلق ان کے موقف کو راجہ پریشدکی تائید حاصل رہی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جموں میں مسلم دشمنی و مسلم مخالف تشدد کا منصوبہ خود مہاراجہ نے بنایا کیونکہ وہ اس بات کے خواہاں تھے کہ جموں و کشمیر کا کم از کم ایک حصہ تو ہندو اکثریتی برقرار رہے۔ ایسے میں مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کی مدد لینے پر مجبور ہوگئے اور پھر انہوں نے ہندوستان سے فوج روانہ کرنے کی خواہش کی اور اس ضمن میں جو پہلی شرط کشمیر کے ہندوستان سے الحاق کی تھی اور اس معاہدہ کے تحت سوائے دفاع مواصلات ، کرنسی اور اُمور خارجہ کے تمام اختیارات ریاستی اسمبلی کے تفویض کردیئے گئے۔ جہاں تک آرٹیکل 370 کا سوال ہے، یہ ہری سنگھ کے اصرار اور ان کی ایماء پر نافذ کی گئی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ جموں و کشمیر کو خصوصی موقف عطا کیا جائے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ حکومت کشمیر اور نیشنل کانفرنس نے ہم پر زور دیا کہ الحاق کو قبول کریں اور فضائیہ کو روانہ کریں۔ طیاروں کے ذریعہ فوج بھیجیں لیکن انضمام یا الحاق کا فیصلہ جموں و کشمیر کے عوام بعد میں کریں گے جب ریاست میں امن و امان ہو۔ (یہ باتیں پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی کتاب میں واضح کی ہیں) اس کے صفحہ نمبر 421 پر انہوں نے لکھا کہ اس معاملے کو دستور ساز اسمبلی سے رجوع کیا گیا اور پھر آرٹیکل 370 لایا گیا۔اس طرح جنگ بندی اور اس معاملے کو اقوام متحدہ سے رجوع کرنا جیسے اقدامات سے حکومت ہند کے موڈ کی عکاسی ہوتی ہے۔ ساتھ ہی پنڈت جواہر لال نہرو کے موڈ کا بھی بخوبی اندازہ ہوتا ہے چنانچہ سردار پٹیل نے (23 فروری 1950ء) کو پنڈت جواہر لال نہرو سے کہا: ’’پاکستان نے جو مخصوص مسائل اُٹھائے ہیں، جہاں تک ان مسائل کا تعلق ہے اور جیسا کہ آپ نے بھی نکتہ اُٹھایا ہے اور کشمیر کا سوال اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور ہندوستان و پاکستان کے درمیان پائے جانے والے اس تنازعہ کو اسی فورم کے ذریعہ حل کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ خود ہندوستان اور پاکستان، اقوام متحدہ کے ارکان ہیں اور اس تنازعہ کو اسی عالمی فورم کے صوابدید پر چھوڑ دیا جانا چاہئے‘‘۔ اصل مسئلہ کسی اور گوشہ کی جانب سے پیدا کیا گیا اور وہ مسئلہ فرقہ پرست طاقتوں کی جانب سے یہ کہتے ہوئے پیدا کیا گیا کہ کشمیر کا طاقت کے بل پر زبردستی سے الحاق عمل میں لایا جائے۔ فرقہ پرست اس بات پر اصرار کررہے تھے، ان کا اصرار تھا کہ زور زبردستی کے ذریعہ کشمیر کو ہندوستان میں ضم کیا جائے جبکہ پنڈت جواہر لال نہرو کشمیری عوام کے اذہان و قلوب کو فتح کرنے کے حق میں تھے۔ وہ جموں و کشمیر کے زبردستی و طاقت کے بل بوتے پر انضمام کے حق میں نہیں تھے۔ پنڈت نہرو اور سردار پٹیل کے موقف میں مکمل ہم آہنگی پائی گئی جو نہرو نے سوچا وہی سردار پٹیل کی سوچ تھی اور اس کا انکشاف نہرو کے نام پٹیل کے ایک مکتوب میں ہوا (جو 23 فروری 1950ء کو لکھا گیا تھا)۔ انہوں نے اس میں یہاں تک لکھا کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ پاکستان کا ہونا لازمی ہے۔ ان لوگوں کا احساس ہے بلکہ وہ حیرت زدہ ہیں کہ آخر ہم کشمیر میں کیوں ہیں، اس کا جواب بالکل سیدھا سادا ہے۔ ہم کشمیر میں کشمیری عوام کیلئے ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہم وہاں رہیں اور جس وقت ہم اس بات کو جان جائیں گے کہ کشمیری عوام نہیں چاہتے کہ ہم وہاں رہیں تب ہم ایک منٹ کیلئے بھی وہاں نہیں رہیں گے۔ ہم کشمیر کو گرنے نہیں دیں گے (’’ہندوستان ٹائمس‘‘ : 31 اکتوبر 1948ء) لیکن بعد میں کشمیر میں جو کچھ ہوا وہ مختلف تھا اور مسئلہ اس لئے پیدا ہوا کہ کشمیر کی خودمختاری کو بتدریج کم کیا جانے لگا اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر کے عوام خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے لگے۔ ان کی ناراضگی بڑھنے لگی۔ اجنبیت اور الگ تھلگ پڑجانے کا یہ رجحان ابتدائی احتجاجی مظاہروں کا باعث بناء۔ اس وقت احتجاجی مظاہرہ شروع کرنے یا وہاں مظاہروں کے حالات پیدا کرنے والے فرقہ پرست عناصر نہیں تھے لیکن پاکستان کی مداخلت اور ناراض کشمیریوں کو تربیت کی فراہمی کے نتیجہ میں تشدد کا آغاز ہوا۔