مسلسل دشمنِ جاں کی نگہبانی میں رہنا ہے

,

   

مودی حکومت … جمہوریت یا ڈکٹیٹر شپ
CAA … سپریم کورٹ پر ملک کی نظریں

رشیدالدین
ہندوستان میں جمہوریت ہے یا پھر ڈکٹیٹر شپ اِس بارے میں عام آدمی کے ذہن میں سوال پیدا ہونا فطری ہے۔ دستور اور قانون کی بالادستی کا حلف تو لیا گیا لیکن گزشتہ 10 برسوں میں مودی حکومت کی من مانی نے دنیا کی دوسری بڑی جمہوریت کو آمریت کی طرف ڈھکیل دیا ہے۔ مودی جو چاہتے ہیں وہی کچھ ہورہا ہے۔ مقننہ، عاملہ اور عدلیہ پر کنٹرول کی کوششیں ہیں۔ عاملہ تو حکومت کے ہاتھ میں ہے اور جمہوریت کا نام نہاد چوتھا ستون میڈیا بھی بی جے پی کی کٹھ پتلی بن چکا ہے۔ پارلیمنٹ میں واضح اکثریت اور ملک کی بیشتر ریاستوں میں اقتدار نے مودی کو عملاً ناقابل چیلنج بنادیا ہے۔ قانون ساز اداروں کے ذریعہ من چاہے قانون اور من مانی فیصلے کئے جارہے ہیں۔ اکثر معاملات میں عدلیہ بھی حکومت کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر کوئی عدالت حتیٰ کہ سپریم کورٹ قانون کی پاسداری کی کوشش کرتی ہے تو حکومت کے پاس عدلیہ کا کوئی احترام نہیں ہے۔ عدلیہ کو بے خاطر کرتے ہوئے آمریت کا ننگا ناچ جاری ہے۔ عوام نے 2014 ء میں کیا اِسی لئے اقتدار دیا تھا کہ جمہوری و دستوری اداروں کو پامال کردیا جائے۔ ہر سطح پر حکومت کے اشاروں پر کام کرنے والے کارندوں کو مسلط کردیا گیا۔ من مانی فیصلوں پر کوئی نگرانی نہیں ہے۔ نوٹ بندی کے فیصلے سے عوام کو سڑکوں پر قطار میں کھڑا کردیا گیا۔ کرنسی نوٹ بچانے کے لئے کئی افراد نے اپنی جان دے دی۔ نوٹ بندی سے چھوٹے اور متوسط تاجر آج تک بھی نقصانات سے اُبھر نہیں پائے ہیں۔ ہر سال 2 کروڑ روزگار کا وعدہ تھا لیکن روزگار تو کجا بیروزگاری میں اضافہ ہوگیا۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی پھر بھی عوام نے نریندر مودی کو دوسری بار موقع دیا۔ دوسری میعاد میں مسلمانوں اور اُن کی شریعت کے خلاف فیصلے کئے گئے۔ طلاق ثلاثہ کو کالعدم کردیا گیا۔ کشمیر کے خصوصی موقف دفعہ 370 کی برخاستگی کے ذریعہ کشمیری عوام میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا گیا۔ ریاست کا درجہ ختم کرتے ہوئے مسلم اکثریتی ریاست کو ہندو اکثریت میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ شہریت ترمیمی قانون کو نہ صرف منظوری دی گئی بلکہ 4 سال کے وقفہ کے بعد الیکشن سے عین قبل نافذ کردیا گیا۔ مودی حکومت کی من مانی قانون سازی کا تسلسل اسی طرح جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب موجودہ دستور کو کالعدم کرتے ہوئے نیا دستور نافذ کیا جائے۔ سیکولرازم اور جمہوریت کے الفاظ کو حذف کرتے ہوئے ہندو راشٹرا کا اعلان کوئی عجب نہیں ہے۔ عوام میں حکومت کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ ہر جبر اور ظلم کو عوام سہنے کے عادی بن چکے ہیں۔ آخر ملک میں ایسا کونسا ’’مودی میجک‘‘ چل رہا ہے جس نے عوام سے جذبۂ ناراضگی کو ختم کردیا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ کمزور اپوزیشن موجودہ صورتحال کے لئے ذمہ دار ہے۔ نریندر مودی نے اپوزیشن کو کبھی بھی متحد ہونے نہیں دیا اور اپوزیشن حکومتوں کو غیر مستحکم کرتے ہوئے عوام میں اپوزیشن کے وقار کو مجروح کردیا گیا۔ ملک کی آزادی کی لڑائی لڑنے والی اور 60 برسوں تک حکمرانی کرنے والی کانگریس پارٹی آج اپنے وجود اور بقاء کی جنگ لڑرہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کانگریس میں اہل اور عوامی مقبول قائدین کی کمی ہے لیکن حکومت سے مقابلہ کی حکمت عملی میں ناکامی نے پارٹی کے اقتدار کو محض تین ریاستوں سے سمٹ کر رکھ دیا ہے۔ لوک سبھا الیکشن سے قبل نریندر مودی نے ریاستوں کے طوفانی دوروں یا پھر دہلی میں بیٹھ کر ہزاروں کروڑ کے پراجکٹس کا آن لائن سنگ بنیاد رکھا۔ ترقی اور عوامی بھلائی کے بلند بانگ دعوے کرنے والی مودی حکومت کو الیکشن سے عین قبل نفرت کے ایجنڈے پر واپس ہونا پڑا۔ سپریم کورٹ سے بابری مسجد کی اراضی رام مندر کیلئے حاصل کرلی گئی، مندر کی تعمیر اور شاندار افتتاح کے باوجود بھی مودی اور بی جے پی کو سیاسی فائدہ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اچانک شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا جو عام چناؤ سے قبل بی جے پی کے ٹرمپ کارڈ کی طرح ہے۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد مقدمہ میں آستھا کی بنیاد پر فیصلہ سنایا تھا اور یہ فیصلہ مسلمانوں کا امتحان تھا۔ فیصلہ سے مسلمانوں کے جذبۂ ایمانی کو جانچنے کی کوشش کی گئی لیکن بھلا ہو مسلم رہنماؤں کا جنھوں نے مصلحت اور تحمل کا درس دیتے ہوئے جمہوری انداز میں احتجاج کی بھی جرأت نہیں کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرقہ پرست عناصر کے حوصلے بلند ہوگئے۔ مٹھی بھر سکھ کسان احتجاج کے ذریعہ مرکز کو مخالف کسان قوانین واپس لینے پر مجبور کرسکتے ہیں تو پھر 20 کروڑ سے زائد مسلمان جو ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہیں، اُن کے جذبات سرد کیوں پڑ گئے۔ شاہ بانو کیس کی طرح ملک کے مسلمان اور اُن کی قیادتیں جرأت اور حوصلے کا مظاہرہ کرتیں تو آج متھرا اور کاشی کی تاریخی مساجد پر بُری نظریں نہ پڑتیں۔ اسلام میں مصلحت اور تحمل کی تعلیم ضرور ہے لیکن میدان جنگ میں دشمن سے مقابلہ کیلئے صف آرائی کے بعد مصلحت کی باتیں کرنا بزدلی ہے۔ ہندوستان میں مسلمان رواداری اور محبت کے ساتھ مزاحمت کا جذبہ پیدا کرتے ہوئے اپنی شریعت اور عبادت گاہوں کا دفاع کرسکتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے صلح حدیبیہ کی مثال پیش کرنے والے اُن غزوات کو بھول جاتے ہیں جن میں خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم شریک ہوئے تھے۔ صلح اور جنگ کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ ابھی تو متھرا اور کاشی کی مساجد پر بابری مسجد کی طرح کارسیوا کی منصوبہ بندی ہے، آگے چل کر ملک کی کوئی تاریخی مسجد حتیٰ کہ درگاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی۔ شہریت ترمیمی قانون نافذ کیا گیا اور اگر مسلمان قوم اور قائدین کی بے حسی برقرار رہی تو این آر سی اور این پی آر کا انتظار کرنا پڑے گا۔
شہریت ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ نے مخالف درخواستوں کی عاجلانہ سماعت سے اتفاق کرتے ہوئے سیکولر اور انصاف پسند طاقتوں میں اُمید کی کرن پیدا کی ہے۔ چیف جسٹس وائی وی چندرچوڑ کی زیرقیادت بنچ نے سی اے اے کیخلاف داخل کی گئی تقریباً 200 درخواستوں کی 19 مارچ کو سماعت سے اتفاق کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یقینا یہ معاملہ عاجلانہ سماعت کا متقاضی ہے۔ سپریم کورٹ نے عوام کے جذبات کا احترام کیا ہے اور جب کبھی حکومتوں کی جانب سے عوام پر کوئی قانون مسلط کیا جاتا ہے تو عوام کی نظریں عدلیہ کی طرف اُٹھ جاتی ہیں۔ ملک کی تاریخ میں کئی ایسے معاملات ہیں جن میں سپریم کورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو دستور اور قانون کا درس دیا ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ نے سب سے پہلے سی اے اے کیخلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ شہریت ترمیمی قانون کے علاوہ الیکٹورل بانڈس پر سپریم کورٹ کا سخت موقف مودی حکومت کے لئے اُلجھن کا باعث بن چکا ہے۔ الیکٹورل بانڈس دراصل سیاسی پارٹیوں کے لئے صنعتی گھرانوں کی جانب سے غیرقانونی فنڈنگ ہے۔ عدالت نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو مقررہ وقت میں تفصیلات پیش کرنے کے لئے پابند کرتے ہوئے اپنی بالادستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ غیر قانونی فنڈنگ میں اِس بات کا پتہ چلا ہے کہ ملک کے بیشتر صنعتی گھرانوں نے بی جے پی کو بھاری عطیات دیئے ہیں۔ صنعتی گھرانوں کے ساتھ مودی حکومت کی قربت کا نتیجہ ہے کہ سب سے زیادہ فنڈنگ بھی بی جے پی کو ملی ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے عام چناؤ کا شیڈول جاری کرتے ہوئے انتخابات کا بگل بجادیا ہے اور اب سارے ملک میں سیاسی ماحول گرما جائے گا۔ ایک طرف مودی تو دوسری طرف راہول گاندھی عوام کے درمیان پیش ہوکر اپنی اپنی پارٹیوں کی خوبیاں اور آئندہ کے منصوبے بیان کریں گے۔ ملک میں بی جے پی سے مقابلہ کے لئے قائم کیا گیا اپوزیشن اتحاد انڈیا الائنس الیکشن سے عین قبل بکھرتا دکھائی دے رہا ہے۔ مغربی بنگال میں ممتا بنرجی نے انڈیا الائنس سے علیحدگی اختیار کرلی جبکہ دوسرا بڑا جھٹکہ نتیش کمار کی بی جے پی میں واپسی سے اپوزیشن کو لگا ہے۔ انڈیا اتحاد کی کامیابی کے سلسلہ میں ملک کے تمام گودی میڈیا منفی مہم پر ہیں اور وقفہ وقفہ سے مودی اور بی جے پی کے حق میں اوپینین پولس جاری کئے جارہے ہیں۔ بی جے پی نے اپنی مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کے لئے 370 لوک سبھا نشستوں پر کامیابی کا نشانہ مقرر کیا ہے۔ یہ ہندسہ دراصل کشمیر میں خصوصی موقف کی دفعہ 370 سے اخذ کیا گیا جسے مودی حکومت نے ختم کردیا تھا۔ 370 کی برخاستگی پر 370 نشستیں حاصل ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ بی جے پی نے تلنگانہ پر توجہ مبذول کرتے ہوئے ہر سال 17 ستمبر کو حیدرآباد لبریشن ڈے منانے کا اعلان کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انضمام حیدرآباد کے بعد مرکزی حکومت نے نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان کو راج پرمکھ کا خطاب دیا تھا تو پھر ملک سے غداری کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے۔ نظام حیدرآباد نے انضمام کی کوئی مزاحمت نہیں کی اور مرکزی حکومت سے مشاورت کے بعد انضمام سے اتفاق کرلیا تھا۔ نظام کو مخالف ہندوستان قرار دینے والے بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین بھول رہے ہیںکہ 1965 ء میں چین کے ساتھ جنگ کے وقت اُس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری کی اپیل پر نظام حیدرآباد نے 5 ٹن سونا بطور عطیہ پیش کیا تھا جو ملک کی تاریخ کا آج تک کا سب سے بڑا عطیہ ہے۔ نظام حیدرآباد کے فلاحی اور رعایہ پروری کے کام آج بھی زندہ ہیں۔ نظام حیدرآباد کو ملک دشمن قرار دینے والے پہلے اپنا محاسبہ کریں۔ نامور شاعر ندیم فرخ نے کیا خوب کہا ہے :
مسلسل دشمنِ جاں کی نگہبانی میں رہنا ہے
جہاں گھڑیال رہتے ہیں اُسی پانی میں رہنا ہے