مسلمانوں کی کانگریس کو تائید

   

کرناٹک کے ریاستی وزیر ضمیر احمد خاںکی کوشش کامیاب

امجد خان
ریاست تلنگانہ میں کانگریس کی کامیابی میں مسلمانوں کا اہم کردار ہے اور مسلم رائے دہندوں کو کانگریس کی جانب راغب کرنے میں کرناٹک کے ریاستی وزیر امکنہ ، اقلیتی بہبود و امور حج و اوقاف ضمیر احمد خاں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے خود کو اس قدر مصروف کیا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ خود اپنا انتخاب لڑرہے ہوں ۔ پارٹی ہائی کمان کی ہدایت پر تلنگانہ میں ضمیر احمد خاں انتخابات سے دو ہفتہ قبل ہی کیمپ کرتے ہوئے تلنگانہ پردیش کانگریس کے قائدین ، مسلم طبقہ کے رہنماؤں اور دانشوروں و مفکرین کے ساتھ مسلسل تبادلہ خیال کرتے رہے جس کے نتیجہ میں ایسے 49 اسمبلی حلقوں میں مسلم رائے دہندوں کو کانگریس کی طرف مائل کروانے میں غیر معمولی مدد ملی جہاں مسلمانوں کا فیصلہ کن موقف ہے چنانچہ ان انتخابات میں ہم سب نے دیکھا کہ مسلم ووٹ جو 2014 اور 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بی آر ایس کے حق میں گیا تھا وہ کانگریس کے حق میں منتقل ہوگیا ۔ ضمیر احمد خاں ایک ایسے لیڈر ہیں جو جذباتی فیصلہ نہیں کرتے بلکہ انتہائی سلجھے ہوئے انداز میں اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں اور سامنے والا ان کے خیالات و دلائل کا قائل ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جمراج پیٹ حلقہ سے مسلسل پانچویں مرتبہ منتخب ہوتے آرہے ہیں ۔ انہوں نے چند برس قبل ایک دلت سوامی کے منہ کا نوالہ کھا کر سارے ملک میں انسانیت اور بھائی چارہ کی ایک مثال قائم کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ مساوات ہی انسانیت کو فروغ دینے کا کام کرتی ہے ۔ انہوں نے اس معاملہ میں بی جے پی اور آر ایس ایس قائدین کو شرمسار کردیا۔ ضمیر احمد خاں نے تلنگانہ کانگریس کو مستحکم کرنے اور مسلمانوں کو اس کے قریب کرنے حیدرآباد آنے سے پہلے انہوں نے اے آئی سی سی جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال کے ساتھ تلنگانہ میں اپنائی جانے والی حکمت عملی پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ۔ اس دوران ضمیر احمد خاں صدر کل ہند کانگریس کمیٹی ملک ارجن کھرگے اور راہول گاندھی سے مسلسل ربط میں رہے جو اقلیتی ووٹوں کو کانگریس کی جانب منتقل کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوا ۔ ضمیر احمد خاں نے صرف اقلیتوں کی تائید و حمایت کو کانگریس کی طرف منتقل ہی نہیں کیا بلکہ مجلس اتحاد المسلمین اور بی آر ایس قائدین کو کانگریس میں شامل کروانے میں بھی کامیاب رہے ۔ ضمیر احمد خاں کی اس حکمت عملی نے بی آر ایس اور ایم آئی ایم کو صدمہ سے دوچار کیا ۔ بودھن ، راما گنڈم ، پداپلی ، بالا کنڈ اور کوڑنگل میں کانگریس امیدواروں نے نہ صرف پہلے کی بہ نسبت زیادہ ووٹ لیے بلکہ کامیابی بھی حاصل کی ۔ اسی طرح کھمم ، ورنگل اور نلگنڈہ جیسے اضلاع میں اقلیتوں بالخصوص مسلم اقلیت کی تائید و حمایت نے کانگریس کو ریاست کے اقتدار پر فائز کیا ۔ کانگریس کو اضلاع کھمم ، نلگنڈہ اور ورنگل میں پچھلے دو انتخابات کی بہ نسبت بہت زیادہ بلکہ اکثر نشستوں پر کامیابی ملی ۔ 2014 اور 2018 کے اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹ بی آر ایس کے حق میں گئے تھے ۔ اس مرتبہ سوائے گریٹر حیدرآباد کے دوسرے اضلاع میں کانگریس نے شاندار مظاہرہ کیا ۔ جس کے لیے مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن رہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلم ووٹ کیسے ان اضلاع میں کانگریس کے حق میں منتقل ہوئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ضمیر احمد خاں نے کرناٹک کے دوسرے مسلم لیڈروں کے ساتھ مل کر خصوصی حکمت عملیوں کو تیار کیا اور انہیں اپنایا ۔ ضمیر احمد خاں ریاست تلنگانہ میں کانگریس کی کامیابی پر ریاست کے عوام بالخصوص مسلمانوں سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں کے مسلمانوں نے انتہائی سلجھے ہوئے انداز میں فیصلہ کیا ۔ وہ ایم آئی ایم کے اثر میں بھی نہیں آئے اور کانگریس کو اقتدار پر لایا ۔ ضمیر احمد خاں یہ بھی کہتے ہیں کہ کانگریس نے انتخابی مہم کے دوران جن 6 گیارنٹیوں کا اعلان کیا تھا اسی طرح اس پر عمل آوری کرے گی جس طرح کرناٹک میں کررہی ہے ۔ ان کے خیال میں عوام نے کرناٹک کی طرح ریاست تلنگانہ میں بھی کانگریس کا ساتھ دیا ۔ اس کے علاوہ سونیا گاندھی ، راہول گاندھی ، پرینکا گاندھی ، ملک ارجن کھرگے اور دوسرے لیڈروں نے جو محنت کی آج ہم اس کا ثمر اقتدار کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔ ضمیر احمد خاں کے مطابق راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ اچھا پیغام گیا نفرت کے بازار میںمحبت کی دکان کے نعرہ نے کمال کردیا ۔ راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے تلنگانہ پر خصوصی توجہ دے کر رائے عامہ کو ہموار کیا ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرناٹک میں کانگریس نے 5 مسلمانوں کو ایم ایل سی بنایا ۔ دو مسلم قائدین کو راجیہ سبھا کا رکن بنایا گیا اور اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کو اچھی خاصی تعداد میں نشستیں دی ۔ 9 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے اور انہیں امید ہے کہ ریاست تلنگانہ میں بھی مسلمانوں کو موثر نمائندگی دی جائے گی ، ان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا، زبانی ہمدردی کی بجائے مسلمانوں کی بہبود کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں گے۔