مسلم اکثریت والے ممالک نے ایغوروں کی جلا وطنی‘ تحویل‘ نگرانی‘نظربندی میں بیجنگ کی مدد کی ہے۔ رپورٹ

,

   

اسلام آباد(پاکستان)۔ محققین کے مطابق زنچیانگ سے فرار ہونے والے چین کے ایغوروں او ردیگر اقلیتوں کی جلاوطنی‘ تحویل ’نگرانی‘ نظربندی میں شرقی وسطی بھر اور ایشیا ء کے مسلم اکثریت والے ممالک نے بیجنگ کا تعاون کیاہے۔

فرنٹیر پوسٹ کے خبر کے بموجب 1997سے مارچ2021تک 28ممالک سے تحویل میں لئے جانے اورجلاوطن کئے جانے کے 1546معاملات کی جانچ پر مشتمل ایک رپورٹ 24جون کے روز جاری کی گئی ہے۔

اکسیس سوسائٹی برائے سنٹرل ایشیائی امور اور ایغور انسانی حقوق پراجکٹس کے مشترکہ پہلا کے نتیجے میں شائع اس رپورٹ میں ایغوروں کے ساتھ چین کی مہم عالمی‘ سطح پر تیزی کے ساتھ مرکزی اور جنوبی ایشیاء بشمول یوروپ‘ مشرقی وسطیٰ اور ساوتھ ایسٹ ایشیاء تک پھیل گئی ہے۔

براڈلی جارڈین مذکورہ ڈائرکٹر اکسیس سوسائٹی برائے سنٹرل ایشیائی اموراورپورٹ کے مرکزی مصنف نے ریڈیو فری یوروپ‘ ریڈیو لیبرٹی (آر ایف ای /آر ایل) کو بتایاکہ”یہاں پر مسلم اکثریت والے ممالک کی زنچیانگ اورایغوروں کے خلاف مظالم پر خاموشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔

مگر اس تفصیلات میں دیکھاگیاہے کہ اسلامی دنیاکی یہ نہ صرف منافقت ہے بلکہ چین کے ساتھ گرم جوشی کا تعاون بھی ہے“۔ اقوام متحدہ انسانی حقوق کے عہدیدار نے اندازہ لگایاہے کہ ایم ملین یا اس سے زیادہ ایغوروں‘کازقاں او ردیگر مسلم اقلیتوں کو چین کے بڑے قیدی نظام میں ایک کیمپ میں محروس رکھا گیاہے۔

سابق میں قید کئے گئے کئی لوگوں کا الزام ہے کہ قید میں ان کے ساتھ مارپیٹ‘ جسمانی اذیت اور یہاں تک کہ نس بندی کی بھی ان کے ساتھ کوششیں کی گئی ہیں۔

دی فرانڈیر پوسٹ کی خبر ہے کہ امریکہ کی حکومتاوردگر مغربی پارلیمنٹ میں چین کی کاروائیکو زنچیانگ میں نسل کشی کا نام دیاگیاہے مگر زیادہ تر مسلم اکثریت والے ممالک کی حکومتیں جس کے چین کے ذریعہ بیلٹ اینڈ روڈ پہل(بی آر ائی) کے ذریعہ بیجنگ سے قریبی تعلقات ہیں اس موضوع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے بموجب ایغوروں کونشانہ بنانے او رچین کو واپس بھیجنے کی کوششیں 2017سے بڑھ گئی ہیں‘ جب بیجنگ مانا جاتا ہے کہ زنچیانگ میں بڑے پیمانے پر قید کرنے کے پروگرام کی شروعات کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ترکی اب بھی ایغور کمیونٹی کے لئے ایک بڑی او راہم علاقے ہے۔

ترکی صدر طیب رجب اردغان نے ایغوروں کا ترکی میں کئی سالوں سے خیر مقدم کیاہے‘ ایک اندازہ کے مطابق82ملین کی ملک کی آبادی میں 40,000ایغور رہ رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے 2020ڈسمبر کو سال2017کی حوالگی کے معاہدہ کو تازہ کیاتھا۔

مگر ترکی کی پارلیمنٹ نے اس پر عمل نہیں کیاہے‘ یہ معاہدہ ایغوروں کو خوف زدہ کررہا ہے کہ کبھی بھی اس فیصلے کی وجہہ سے انہیں بیجنگ کی درخواست پر چین واپس بھیج دیاجاسکتا ہے۔