اسلام آباد۔ پاکستان کے صوبے پنچاب میں حال ہی میں ایک یونیورسٹی پروفیسر کے ’’ توہین ‘‘ کے معاملے پر کئے گئے ایک پروفیسر کے قتل کے بعد پھر ایک مرتبہ ملک کا متنازعہ قانون توہین منظرعام پر آیا ہے ‘ جس کے تحت اسلام یا پیغمبر اسلامؐ کی شان اقدس میں گستاخی کا مرتکب پائے جانے والے فرد کو موت کی سزاء سنائی جاتی ہے۔
وہیں اب تک اس قانون کے تحت توہین سے متعلق واقعات میں کسی کو سزاء نہیں ہوئی ہے ‘ اس طرح کے الزامات کا نتیجہ سابق میں اس قسم کے واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف ہجومی تشدد کے شکل میں منظرعام پر آیا ہے۔
چہارشنبہ کے روز ایک 21سالہ طالب علم خطیب حسین نے 21مارچ کے روز مردوں اور عورتوں کی ایک مشترکہ تقریب منعقد کرنے پر سرکاری صادق ایگریٹون کالج کے ہیڈ برائے انگریزی محکمے پر چاقو سے وار کردیا تھا جس کی وجہہ سے ان کی موت واقعہ ہوگئی
۔حسین نے اس تقریب کو ’’ غیر اسلامی‘‘ قراردیا اور اپنا اقبالیہ بیان میں کہاکہ ’’ اس نے قانون اپنے ہاتھ میں صرف اس لئے لیاہے کیونکہ حکومت قانون توہین کو درست انداز میں نافذ نہیں کررہی ہے اور توہین کرنے والے آزاد گھوم رہے ہیں‘‘۔
حملہ آور نے ایک ریکارڈ کئے گئے ویڈیو میں کہاکہ ’’ وہ ( مذکورہ پروفیسر) اسلام کے خلاف بہت باتیں کرتاتھا۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتاہوں وہ فوت ہوگیا‘‘۔ پروفیسر کے بیٹے ولید خان نے عدم کاروائی پر حکومت کو شددی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ’’ میرے والد حکومت پاکستان کے ملازم تھے ۔ واقعہ بھی کالج کے احاطے میں پیش آیا ہے مگر حکومت نہ تو کوئی دلچسپی دیکھا رہی ہے اور ان ہی واقعہ کے خلاف کسی قسم کا تحفظ حکومت کے پاس دیکھنے کو مل رہا ہے‘‘۔
اسلام آباد میں انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والے عصمت جہاں نے ٹی او ائی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ’’ یہ بڑی چونکا دینے والی بات ہے کہ ایک اسٹوڈنٹ اپنے ٹیچر کا قتل کردیتا ہے او رکہاکہ اس نے مقدس مشن پورا کیا۔ یہ خطرناک ذہنیت ہے‘‘۔
صوبہ خیبر پختون میں پچھلے سال ایک طالب علم نے کالج پرنسپل کو ’’ توہین رسالتؐ‘‘ کا مورد الزام ٹہراتے ہوئے گولیوں کا شکار بناتھا ۔ مذکورہ پرنسپل نے اس طالب علم کو اسلام آباد میں دائیں بازو اسلامی گروپ کے احتجاج میں شامل ہونے اور کلاسس میں برابر طریقے سے حاضر نہ ہونے پر برطرف کردیاتھ