مشکل حالات میں ایسٹ پاکستان چھوڑنے والے ہاجونگوں‘ این آ رسی میں شامل نہیں

,

   

گوہاٹی۔مشرقی پاکستان کے کسی علاقے سے 1964کے دوران گاؤں سے جبراجس کے وقت والدین کو نکال دیاگیاتھا اس وقت رینوبالا ہاجانگ محض اٹھ سال کی تھی۔کئی دنوں تک سفر کے بعد وہ میگھالیہ کے گارو ہلز میں داخل ہوئی جہاں سے وہ آسام کے گولپارہ ضلع میں پناہ گزینوں کے لئے بنائے گئے راحت کاری کیمپ پہنچے۔

لاکھوں پناہ گزین جس میں زیادہ تر ہاجانگس‘ گاروس‘ کوچاس‘ اور بنگالی ہندوؤں شامل تھے جو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش)میں فرقہ وارانہ فسادات رونما ہونے کے بعد بے گھر ہوگئے تھے اور بعد میں 1960کے دوران آسام کے مختلف مہاجرین کیمپ میں زندگی بسر کرنے لگے۔

سال1960کے دہے تک آسام میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 5,00,000ہوگی۔

گول پارہ کے ماٹیامیں رینو بالا اور سینکڑوں دیگر پناہ گزین جس میں اکثریت ہاجونگ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کی ہے 1960کے دہے میں یہاں آکر بس گئے۔ بعد یہ تمام ہندوستانی شہری ہوگئے۔

مگر این آر سی کی قطعی فہرست سے اخراج کے بعدان کی وابستگی کے احساس کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔

رینو بالا نے کہاکہ ”ماضی میں مشرقی پاکستان میں پیش ائے تشدد کوہم فراموش کرچکے تھے کیونکہ ہم ہندوستانی شہری بن گئے ہیں۔

مگر جب ہمیں معلوم ہے کہ ہم میں سے کئی لوگوں کے نام این آر سی میں شامل نہیں ہے تو ہماری وابستگی کے احساس کو شدید ٹھیس پہنچی ہے“۔

ماٹیااور اس کے پڑوسی علاقوں میں 700لوگوں پر مشتمل 250ہاجونگس خاندان ہیں۔ ان میں سے ایک سو سے زائد‘ جس میں بیشتر خواتین ہیں جنھیں این آر سی سے خارج کردیاہے۔

رینو بالا نے کہاکہ ”تین بیٹوں‘ بہوؤں اور ان کے بچوں کے نام این آ رسی میں شامل ہیں مگر میرا نام خارج کردیاگیاہے۔ میری طرح کئی عورتیں میری کمیونٹی کے نام خارج کردئے گئے ہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے معاملے میں جدوجہد کے لئے کس طرح پیسے اکٹھا کئے جائیں“۔

مینوٹی ہاجونگ (50)نے کہاکہ ہم میں سے بیشتر پناہ گزینوں نے این آر سی میں شمولیت کے لئے رفیوجی سرٹیفکیٹ پیش کیاتھا۔

مینوٹی نے مزید کہاکہ”مجھے انداز بھی نہیں ہے کہ کتنے نام نکال دئے گئے ہیں جب میرے شوہر اور دوبیٹوں کے نام شامل کئے گئے ہیں“۔ روہیلا ہاجونگ (28)نے کہاکہ میں نے اپنا رفیو سرٹیفکیٹ بھی داخل کیااور دو مرتبہ سنوائی کے لئے بھی مجھے بلایاگیا۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”ہر سنوائی کے دوران پانچ سوروپئے کا خرچ آیا۔ مذکورہ سخت مشقت سے میں پریشان ہوں جومیری شہریت ثابت کرنے کے لئے دوبارہ اس سے مجھے گذرنا پڑے گا“۔

چیف منسٹر آسام کے قومی مشیر شانتانو بھارال نے کہاکہ”لوگوں کو خوف میں نہ آنے کی ہماری درخواست ہے۔ این آر سی سے خارج لوگوں کے لئے حکومت اپنا ہر ممکن تعاون کرے گی“