معرفت ِحق کی نشانیاں

   

ڈاکٹر حسن الدین صدیقی
اور اُسی کی نشانیوں میں سے جملہ مخلوقاتِ ارضی و سماوی ، اجرام فلکی مری و غیرمری، ملائیک، جِن و اِنس، شمس و قمر، روشن ستارے، سیارے، شجر، حجر، بحر، زمین، پانی ، ہوا، جملہ نباتات و جمادات، حیوانات و حشرات، چرند، پرند، جنگل و بیابان، صحرا وگلستان، زلزلے، سیلاب، طوفانِ باد وباراں، آتش فشاں، سورج و چاند کا طلوع وغروب ہونا، گردشِ لیل و نہار، پیمانۂ وقت، دن و رات، ماہ و سال، سورج کی تابانی، چاند کی نورانی، شام عزالان، صبح بہاران، چڑیوں کی چہک، کلیوں کی چٹخ، پھولوں کی مہک، جگنو کی دمک، قوسِ قزح، چاند وسورج، گہن، پہاڑوں کا رنگ برنگ، دریاؤں کا بہہ نکلنا ، چشموں کا اُبل پڑنا، گرداب، بھنور، شبنم، اولے ، بلبلے، کوہستانی راستے، درے، جھیل، آبشار، ابر کا تہ بہ تہ چھا جانا اور ہواؤں کا اُنہیں اُڑا لے جانا، بادلوں کی کڑک، بجلی کی چمک، سمندروں میں کشتیوں کا چلنا اور ان میں سے موتیوں اور مونگوں کا برآمد ہونا، میٹھے اور کھارے پانی کے دریاؤں کا ایک ساتھ بہاؤ اور ان کے درمیان ایک آڑ کا ہونا، پرندوں کا اُڑنا اور فضاء میں ان کو تھامے رکھنا، زمین کی زرخیزی اس کی آبیاری، لہلہاتی کھیتیاں، اناج کی بالیاں، خوشبودار پھل اور پیداواری انواع و اقسام ، زمین کی درزوں میں پانی کا ذخیرہ کر رکھنا اور جملہ معدنی ذخائر اور قدرتی وسائل کا ایک مدتِ معینہ تک کیلئے اکھٹا کردیا جانا، یہ سبھی تو انسان کے تمتع و تصرف کے لئے ہے، بقدر ضرورت و میزان بفضل رحمن۔ پس ائے اولاد آدم! تم اللہ کی ان بیش بہا نعمتوں میں سے کن کن نعمتوں کا انکار کروگے؟ یہ تمام مظاہر قدرت معرفت ِ حق کی نشانیاں ہی تو ہیں:
برگِ درختان سبز و درنظر ہوشیار
ہر ورقے دفتر است معرفت ِ کردگار
اور اللہ کا وعدہ ہے کہ ’’عنقریب ہم اُنہیں اپنی نشانیاں آفاقِ عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود اُن کی ذات میں بھی یہاں تک کہ اُن پر کھلی جائے کہ حق یہی ہے۔ کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں‘‘۔
(حٰم سجدہ 41، آیت 53)
غور کیجئے کہ رب اعلیٰ کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے ایک خود انسان کا اپنی ذات سے متصف ہونا ہے کہ تین بلین (ارب) خلیوں (CELLS) سے بنا یہ خاکی مسجودِ ملائیک ہے!
(ص 38، آیات 71-73) یہی کیا کم ہے؟
شرط ِ انصاف نباشدکہ تو فرماں نہ بری