’’معمولی تبدیلی غیرمعمولی نتائج‘‘

   

ڈاکٹر قمر حسین انصاری
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
’’دُنیا بہت ہی تنگ مسلماں پہ ہو گئی
جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا
شاید حضور ہم سے خفا ہیں منا کے لا‘‘
آج کی دُنیا اُمتِ مسلمہ کے لئے دن بدن تنگ سے تنگ تر ہوتی جارہی ہے ۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم سنجیدگی سے اپنا محاسبہ کریں کہ آخر ہم سے کیا غلطیاں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں جس کی وجہ ہم ساری دُنیا کی نظروں میں گرتے جارہے ہیں اوریہ کہ کیسے ہم اس کا ازالہ کرسکتے ہیں ۔
سورۃ الرعد میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اُس کے آگے اور پیچھے خدا کے چوکیدار ہیں جو خدا کے حُکم سے اُس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ خدا اُس ( نعمت) کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے ‘‘ ۔
مسلمانو ! یاد رکھو اﷲ دیکھ رہا ہے ۔
زُباں سے میں کیوں کہوں ، بھلا ہوا ، بُرا ہوا
ہے درج اُس کے پاس سب وہاں ہے سب لکھا ہوا
کہ زندگی ہے بُوم رینگ کی طرح ہو بہو ۔ ہے طئے شدہ لوٹ کر ملے گا سب کیا ہوا ( بوم رینگ ایک کھلونا ہے جو آسٹریلیا میں بنا ہے جسے آپ کسی بھی سمت پھینکیں وہ گھوم کر آپ ہی کے پاس لوٹ کر آتا ہے ) ۔ ہماری زندگی کا فلسفہ بھی یہی ہونا چاہئے ۔
چھوٹے چھوٹے قطروں سے بڑے بڑے سمندر بنتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے بڑے بڑے انقلاب آتے ہیں ۔ ایک عادت میں چھوٹی سی تبدیلی آپ کی زندگی ، آپ کی شخصیت بدل سکتی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے پوری دُنیا بدل سکتی ہے ۔
روزنامہ سیاست بروز چہارشنبہ بتاریخ ۱۱جنوری ۲۰۲۳؁ء صفحۂ چار پر ایک خبر مندرجہ ذیل سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئی ’’ تین عرب ممالک دُنیا کے سب سے غصہ ور قرار … عالمی سروے ادارہ گیلاپ کے مطابق لبنان ، عراق اور اُردون کے لوگوں کو سب سے زیادہ غصہ آتا ہے ‘‘ ۔ یہ خبر ’’عرب نیوز‘‘ کے حوالے سے شائع ہوئی ۔
چاہے اس کی وجہ اُن ممالک کی خانہ جنگی ، معاشی بدحالی اور سیاسی اُتھل پھتل ہوں ۔ میرے ذاتی تجربہ کے عین مطابق ہے جو دوران ملازمت سعودی عرب میں اور اور یہاں اپولو ہاسپٹل حیدرآباد میں آئے ۔ عرب مریضوں کے ساتھ طبی مشاورت میں ’’ وَلْيَتَلَطَّفْ ‘‘ ( نرمی سے پیش آؤ ) یہ لفظ سورۂ کہف کی اُنیسویں آیت کا ہے ۔ جو تھوڑا بڑا لکھا ہوتا ہے کیونکہ یہاں قرآن مجید کا درمیان ہوتا ہے ۔ قرآن مجید ، فرقان الحمید کے بالکل بیچ یعنی دل میں آنے والا لفظ ہے جو ہماری زندگی کے لئے ماڈل اور رہنما ہے ۔
خدا تک پہنچنے کا راستہ دل ہی سے گذرتا ہے اور یہی صفت یعنی ’’نرم مزاجی ‘‘ ہمارے ’’محسنِ ؐانسانیت‘‘ کی سیرت ِ طیبہ کا روشن پہلو ہے ۔ جس سے آپؐ نے لاکھوں مشرکوں کا دل جیت لیا اور وہ مشرف بالاسلام ہوئے ۔ الحمدﷲ !
کتنی مایوس کُن بات ہے کہ ہم نے اپنی تاقیامت مشعلِ راہ قرآن مجید اور سنتِ شریفہ کی رسی کو چھوڑ دیا ہے اور تُنک مزاج ہوگئے ۔ مزاج میں نرمی ہرلمحہ ہر گھڑی لازم ہے ۔ نرمی اختیار کریں اختلاف کے موقعہ پر نرم لہجہ لازم ہے ۔ نصیحت کی گھڑی میں ، نرم خوئی ناگزیر ہے ، برائی سے روکتے ہوئے ، نرم کردار ضروری ہے ۔ مسلمانوں سے میل ملاپ میں نرم اطوار لازم ہیں ۔ غیرمسلموں کے ہمراہ ، نرمی ناگزیر ہے ۔ والدین کے ساتھ ، نرم گوئی لازم ہے بیوی کے ساتھ ، نرم اخلاق بچوں کی تربیت کے لئے ضروری ہیں مزاج میں نرمی اختیار کریں۔ آپ کا ہر عمل خوبصورت ہوجائیگا اور آپ کی زندگی سنور جائیگی ۔ … ورنہ ’’حاصلِ زندگی حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ یہ کیا نہیں ، وہ ہوا نہیں ، یہ ملا نہیں وہ رہا نہیں ‘‘ ۔
پرندہ اپنے پاؤں اور انسان اپنی زبان کی وجہ سے جال میں پھنستے ہیں ۔ گفتگو میں نرمی اختیار کریں۔ بزرگوں کی نصیحت ’’زُباں شیریں ملک گیری ‘‘ اپنائیں۔ ہماری دُنیا کے مسائل اتنا زیادہ نہیں ہیں جتنے طنز ، سوال ، دِل دُکھانے والے تبصرے ہیں ۔ اگر صرف زبان روک لی جائے تو بہت سے دلوں کو سُکون ملے گا ۔
رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد مبارک ذہن نشین کرلیجئے ’’جس نے اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی میں اُسے جنت کی ضمانت دوں گا ‘‘ ۔ (متفق علیہ)
بدگمانی اور بدزبان دو ایسے عیب ہیں جو انسان کے ہر کمال کو زوال میں بدل دیتے ہیں ۔ اس لئے اچھا سوچئے اور اچھا بولئے ۔ زبان میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی ۔ لیکن وہ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ اچھے اچھوں کے دلوں کو توڑ دیتی ہے ۔
اپنی نرم مزاجی اور خوش کلامی سے لوگوں کو دلوںکو جیتئے تاکہ اﷲ آپ سے محبت کرنے لگے اور آپ اﷲ کے قریب تر ہوتے جائیں … کہ
منزل تیری تلاش میں گھومے گی در بدر
خَلقِ خدا کی راہ سے روڑے ہٹا کے دیکھ