مقامِ مولائے کائنا ت حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ

   

مولانا حافظ سید شاہ مدثر حسینی

امیرالمؤمنین،امام الاولیاء،سیدالصادقین، شیر خدا مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ؓ کو اللہ تعالی نے بے پناہ خصائص وامتیازات سے ممتاز فرمایا،آپ کو فضائل وکمالات کا جامع،علوم ومعارف کا منبع،رشد وہدایت کا مصدر،زہد و ورع،شجاعت وسخاوت کا پیکر اور مرکز ولایت بنایا،آپ کی شان و عظمت کے بیان میں متعدد آیات قرآنیہ ناطق اور بے شمار احادیث کریمہ وارد ہیں۔
سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باکرامت کعبۃ اللہ شریف کے اندر ہوئی، اسی وجہ سے آپ کو مولود کعبہ کہا جاتا ہے، آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ولادت باکرامت کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رخ زیبا کا دیدار کیا ہے ، _حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ بچوں میں سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا ۔ آپ کی شان وعظمت اور حضور سے کمال قربت کا اندازہ صحیح بخاری شریف میں وارد حضور اکرم ﷺکے اس ارشاد مبارک سے ہوتا ہے آپ نے فرمایا: ائے علی!تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فضیلت اس بات سے بھی ہوتی ہے اللہ نے آپ کو داماد رسول کےلئے منتخب فرمایا اور عقد نکاح،خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا سے کروایا۔
سیدنا علی المرتضیؓ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف رضی اللہ عنہم ہے۔ جب کبھی وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں؛جبکہ حضرت علی ؓ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں،کیونکہ حضرت علیؓ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹادیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگادیتے اور انہیںسجدہ کرنے سے روک دیتے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا ہے تو ’’کرم اللہ وجہہ ‘‘ (اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو باکرامت رکھے)کہا جاتاہے۔  
نبی کریم ﷺلشکر کے ساتھ غزوہ تبوک کی طرف تشریف لیجانے لگے تواس وقت حضرت علیؓ نے عرض کیا: کیا میں آپ کے ساتھ چلوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ حضرت علیؓ رو پڑے، اس پر حضور ﷺنے فرمایا:’’ اے علی ؓ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری منزلت میرے نزدیک ایسی ہے جیسی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک حضرت ہارون علیہ السلام کی مگر یہ کہ تم نبی نہیں ہو۔ پھر فرمایا: تم میرے نائب ہو۔
حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ہستی اللہ تعالی اور اس کے حبیب ﷺکی بارگاہ میں ایسی مقبول ہے کہ آپ سے محبت کرنے والے کو حضور اکرم ﷺ نے اپنا محبوب قرار دیا اور آپ سے بغض رکھنے کواپنی ناراضگی قرار دیا‘ جیساکہ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے: حضرت سیدنا سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی مرتضی ؓ سے ارشاد فرمایا:(ائے علی) تم سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تم سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی بلند و بالا ہستی اور آپ کے فضائل و مناقب کے کیا کہنے!جبکہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کمالات کو بڑی جامعیت کے سا تھ ارشاد فرمایا،چنانچہ اس سلسلہ میں امام ابو نعیم اصبہانی ؒ نے روایت نقل کی ہے:حضور اکرم ﷺکے غلام سیدنا ابو حمراء ؓ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ ہم حضرت نبی اکرم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر تھے کہ حضرت علی رونق افروز ہوئے،تو رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی علمی شان کے ساتھ دیکھے، حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی فہم ودانشمندی کی شان کے ساتھ دیکھے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پاکیزہ اخلاق کی شان کے ساتھ دیکھے تو وہ علی ؓبن ابی طالب کو دیکھ لے۔
سیدنا مولائے کائنات ؓکی شان میں نہ صرف قرآنی آیات نازل ہوئی ہیں بلکہ آپ کے حق میں صاحب قرآن نے یہ مژدۂ جاں فزا سنایا کہ علی ؓ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی ؓکے ساتھ ہے۔
جب حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے پوچھا جاتا ہے کہ مردوں میں سے رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟آپؓ فرماتی ہیں‘ حضرت فاطمہؓ کے شوہر یعنی حضرت علی ؓ۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حضرت علی ؓ آئے اور سلام کر کے کھڑے ہوگئے۔ حضور منتظر رہے کہ دیکھیں کون ان کے لئے جگہ بناتا ہے۔ حضرت ابوبکر ؓ آپ کی دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے ،آپ اپنی جگہ سے اْٹھ گئے اور فرمایا‘ اے ابوالحسن! یہاں تشریف لے آئیے،حضرت علی ؓ حضور ﷺ اور سیدنا ابوبکر ؓکے درمیان بیٹھ گئے۔ اس پر آقا ومولٰی ﷺ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا‘ ’’اہل فضل کی فضلیت کو صاحب فضل ہی جانتا ہے‘‘۔حضرت ابوبکر صدیقؓ اکثر حضرت مولائے کائنات ؓ کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے۔ حضرت عائشہ ؓنے ان سے اس کا سبب دریافت کیا تو فرمایا‘ میں نے آقا و مولٰی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی ؓکے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔
امیرالمؤمنین حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد انصار ومہاجرین صحابہؓ نے حضرت مولائے کائنات ؓکے دستِ حق پرست پر بیعت کرکے آپ ؓکو امیرالمؤمنین منتخب کیا، اور چار برس آٹھ ماہ نو دن تک آپؓ مسندِ خلافت کو سرفراز فرماتے رہے۔۱۷ رمضان ۴۰؁ھ کو عبدالرحمن بن ملجم مرادی خارجی مردود نے نمازفجر کو جاتے ہوئے مولائے کائنات حضرت سیِّدُنا علی شیرخدؓا کی مقدس پیشانی اور نورانی چہرے پر ایسی تلوار ماری جس سے آپ شدید طورپر زخمی ہوگئے، اور ۲۱؍ رمضان شب یکشنبہ آپ جامِ شہادت سے سیراب ہوگئے۔ آپؓ کے بڑے فرزند حضرت سیدناامام حسن رضی اللہ عنہ نے آپ ؓکی نمازِجنازہ پڑھائی اور آپؓ کو سپرد لحد فرمایا۔

(تاریخ الخلفاء وازالۃ الخلفاء)
ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے دلوں کو اہلِ بیت اطہار کی حقیقی محبت کا مرکز بنائیں اور اہلِ بیت اطہارسے حقیقی محبت رکھنے والوں کی صحبت اختیارکریں۔
حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی چونکہ اللہ تعالی کو بھی محبوب ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی محبوب ہے،جیساکہ اما م مسلم نے مسلم شریف میں حدیث پاک نقل فرمائی:حضرت زربن حبیش ؓ سے وایت ہیکہ حضرت علی ؓ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے)اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا ،حضور نبی امی ﷺ کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مؤمن ہی محبت کریگا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔(صحیح مسلم )
حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ ؓنے اپنے عہد کا ایک خصوصی جج (Special Judge)بھی مقرر فرمایا ہوا تھا،جنہیں آج ہم امیر المؤمنین،مولائے کائنات حضرت سیِّدُنا مولا علی شیرخدا ؓ کے مبارک نام سے یاد کرتے ہیں، جب بھی کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا سیِّدُنا فاروقِؓ آپ کوبلاتے اور مسئلہ آپ کے سامنے رکھتے پھرحضرت سیِّدُنا علی المرتضی شیر خداُؓ اسے حل فرماتے۔(فیضانِ فاروقِ اعظم،۲/۸۰۳)
بعض اوقات تو انتہائی مشکل معاملے کو حضرت علی ؓاس قدر آسانی سے حل کرلیا کرتے کہ حضرت سیِّدُنا عمر فاروق ؓداد دئیے بغیر نہ رہتے۔
ایک مرتبہ حضرتِ سَیِّدُنا عمر ؓبن خطاب کے سامنے ایک ایسی عورت پیش کی گئی جو شرعی گواہوں اور ثُبوتوں کی روشنی میں مجرم قرار پائی تو حضرت عمر فاروق ؓنے اس عورت کے لئے شریعت کے مطابق فیصلہ بیان فرما دیا مگر اتفاق سے اُس مسئلے کے ایک خاص پہلو کی طرف حضرت سَیِّدُنا عمر فاروق ؓکی توجہ نہ رہی جب حضرت سَیِّدُنا علی المرتضی ؓ نے اس پہلو کی طرف توجہ دلائی تو حضرتِ سَیِّدُنا عمر ؓبِن خطاب نے اپنا فیصلہ واپس لیا اور فرمایا:لَوْ لَا عَلِیٌّ لَھَلَکَ عُمَرُ یعنی اگر حضرت علی ؓ ُ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔(الاستیعاب،باب حرف العین،۳ /۶۰۲ملخصاً)
حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ ؓ کے دل میںحضرت علی ؓکی عظمت ومحبت کا کیا عالم تھاکہ آپ نے مولائے کائنات علی ؓ کو اپنی عدالتوں کا خصوصی جج اور اپنا معاونِ خصوصی بنایا تھا، ذرا سوچئے! یہ تعلق کتنا پیارا ہے اور حضرت علیؓ کی شان ومقام کتنا بلند ہے کہ رسولُ اللہ ﷺکے خلیفہ خود فاروق اعظم ؓ نے مولائے کائنات ؓ کو خصوصی جج بنانا اور ان کو اپنا معاون خصوصی بنا نا اہلِ بیتؓ سے والہانہ الفت ومحبت پر دلالت کرتا ہے۔
((المستدرک للحاکم، المعجم الکبیر للطبرانی،فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبہانی،مستدرک علی الصحیحین،معجم اوسط طبرانی،ترمذی،(الصواعق المحرقتہ: ۹۶۲)