مقصد ِ قربانی تقویٰ کا حصول اور خواہشات نفس کی قربانی

   

’’قربانی ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس سے ہر وہ عمل یا شئی مراد ہوتا ہے جس کو انسان اﷲ تعالیٰ کے حضور میں تقرب کے لئے پیش کرتا ہے خواہ وہ قربانی کا جانور ہو یا نذر و نیاز ہو یا عام خیرات و صدقات ہو۔ (الراغب : مفردات القرآن بذیل مادہ قرب ) لفظ قربان عرف عام میں جانور کی قربانی کے لئے بولا جاتا ہے ’’قربان ‘‘ عربی مصدر کے آگے یائے تحتانی اضافہ کرکے ’’قربانی ‘‘ کہتے ہیں جس طرح خلاص سے خلاصی اور فلاں سے فلانی کہا جاتا ہے ۔
قربانی درحقیقت حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی انتہا درجہ کی جاں نثاری کی یادگار ہے ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے اشارہ پر ضعیفی کی عمر میں اپنے اکلوتے جوان لڑکے کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے آمادہ ہوئے ۔ قربانی صرف حضرت ابراھیم ؑ کے جذبۂ قربانی کی یادگار نہیں بلکہ اس میں حضرت اسمٰعیلؑ بھی برابر کے شریک رہے ۔ چنانچہ حضرت ابراھیم ؑ حکم خدا کا اظہار اپنے فرزند دلبند سے کیا اور فرزند نے جس جذبۂ تسلیم و رضا سے جواب دیا وہ سارا مکالمہ قرآن مجید نے قیامت تک کے لئے اپنے سینے میں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کیا ہے ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے : سورۃ الصفت)
یہ عظیم قربانی بی بی ہاجرؑ کے بطنی فرزند حضرت اسمعٰیل ؑ کی تھی، بی بی سارہ کے بطن سے تولد ہوئے دوسرے فرزند حضرت اسحٰق علیہ السلام کی نہ تھی۔ بائبل میں قربانی کے واقعہ کو حضرت اسحٰق علیہ السلام سے منسوب کیا گیا ہے جوکہ یہود کی تحریف اور اضافہ ہے ۔ نیز مسلمان متکلمین نے قطعی دلائل کے ساتھ اس تحریف کو ثابت کیا ہے ۔ ( الرأی الصحیح فی من ھوالذبیح ) ۔ اردو دائرۃ المعارف میں حج کی بحث میں ہے : انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا میں یہ جو لکھا ہے کہ ’’بائبل میں حضرت اسحٰق علیہ السلام کی قربانی کا باب نہ اصلی ہے ، نہ قدیم ‘‘ بالکل درست معلوم ہوتا ہے ۔

تورات کے مرتبین نے یا تو تعصب کی بناء پر یا دانستہ طورپر غلط بیانی سے کام لیا ہے ۔ تکوین (۲۲:۱۔۲) کے الفاظ ہیں : ’’ان باتوں کے بعد خدا نے ابراھیم کو آزمانا چاہا اور کہا : ’’تیرے بیٹے ، اکلوتے اسحٰق کو جس سے تو محبت کرتا ہے ، لے اور موریۂ کے ملک کو جا اور اسے وہاں ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا ، قربان کر‘‘ ۔
جبکہ قرآن مجید کی سورۃ الصفت کی آیات کی روشنی میں واضح ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اپنے فرزند کو ذبح کرنے کی سخت آزمائش میں کامیابی پر بطور انعام ایک فرزند حضرت اسحق ؑکی ولادت کی بشارت دی ۔ چنانچہ تورات کی داخلی شہادتیں بھی قرآن مجید اور اسلامی روایات کی تائید کرتی ہیں۔ مذکور الصدر بائبل کے اقتباس میں اکلوتے فرزند کا ذکر ہے اور حضرت اسحٰق علیہ السلام کسی بھی وقت اکلوتے بیٹے نہیں رہے ۔ اور بائبل کے مطابق قربانی کے لئے اکلوتا بیٹا پیش کیا جاتا نیز بائبل میں حضرت ابراھیم ؑکا باقاعدہ بی بی ھاجرہ ؑسے نکاح کا واضح ثبوت موجود ہے ۔
حضرت اسحٰقؑ پہلے فرزند نہیں بلکہ دوسرے ہیں اور اکلوتا بیٹا حضرت اسمعیلؑ رہے نہ کہ حضرت اسحق علیہ السلام ۔ کتاب تکوین کی تصریحات درج ذیل ہیں: ’’اور جب ابرام ( ابراھیم ) کے لئے ہاجر سے اسمعٰیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا ‘‘( تکوین :۱۶،۱۶) ’’اور جب اس کا بیٹا اسحٰق پیدا ہوا تو ابراھیم سو برس کا تھا ‘‘ (تکوین:۲۱)حضرت اسمعٰیلؑ ، حضرت اسحٰق سے تیرہ چودہ برس بڑے تھے اور اکلوتے فرزند حضرت اسمعٰیل علیہ السلام ہی تھے اور یہی مفہوم و مقصود قرآن مجید اور اسلامی روایات کا ہے ۔

۱۰؍ ذوالحجہ کو حجاج کرام لاکھوں کی تعداد میں اور ساری دنیا کے مسلمان اپنے اپنے علاقوں میں جانور قربان کرکے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیل ؑکی سچی و قلبی قربانی کی یاد کو تازہ کرتے ہیں ، جس سے مسلمانوں کے قلب و شعور میں ایک نیا حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت ابراھیم ؑ سو برس کی عمر میں اپنے بڑھاپے کے سہارے جواں سالہ اکلوتے فرزند کو جو ان کے تنہا وارث تھے صدق دل سے قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے اسی طرح ہم بھی اﷲ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنی ہرچیز جان و مال حتی کہ اولاد کو قربان کرنے کے لئے تیار رہیں۔

عید کے دن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب عمل جانور کا خون بہانا ہے اور قربانی کے جانور کا قطرۂ خون زمین پر گرنے سے پہلے صاحب قربانی کی مغفرت ہوجاتی ہے ۔ نیز مسلمان قربانی کا گوشت اپنے عزیز و اقارب ، دوست و احباب ، فقراء و مساکین میں تقسیم کرکے حضرت ابراھیم ؑ کی ضیافت و مہمان نوازی کی سنت کی پیروی کرتا ہے۔واضح رہے کہ ’’کورونا‘‘ کی وجہہ سے اول قربانی کرنا دشوار ہوگیا ہے تاہم ایام قربانی میں حتی المقدور قربانی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ،ثانیاً قربانی کردی جائے تو تین حصے کرنا اور غرباء و فقراء اور عزیز و اقارب میں تقسیم کرنا دشوار ہوگیا ہے ۔ بناء بریں گوشت کی تقسیم کے سلسلے میں عوام الناس میں اُلجھن پائی جارہی ہے جبکہ معلوم ہونا چاہئے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا افضل و مستحب ہے کوئی فرض یا واجب نہیں یعنی اگر کوئی موجودہ سماجی فاصلہ کے تناظر میں قربانی کا گوشت خود اہل و عیال کے ساتھ استعمال کرلے تو شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ۔ اسلام میں قربانی کامفہوم و منشا خود اس کے لفظ سے واضح ہے کہ قربانی کے معنی رضائے الٰہی کو پانا اور اس کے قرب خاص میں شامل ہونا ہے اور یہ قرب خاص خواہشات نفسانی کی قربانی اور تسلیم و رضا کے پیکر بننے سے حاصل ہوتی ہے اور حقیقی قربانی اپنے نفس کی قربانی ہے اور نفسانیت ہی اﷲ تعالیٰ کے قرب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ بڑے بڑے جانور کو قابو پاکر اسکو ذبح کرنا آسان ہے لیکن نفس پر قابو پانا اور اس کی خواہشات کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’قربانی کے جانور کا گوشت اور اس کا خون اﷲ تعالیٰ کو نہیں پہنچتا ۔ حقیقت میں اﷲ تعالیٰ کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔ (سورۃ الحج : ۲۲) قربانی سے مقصود دل میں تقویٰ کی کیفیت پیدا کرنا ہے اور یہی تقویٰ کی کیفیت مسلمان کو اﷲ تعالیٰ کے گناہ ، نافرمانی اور خواہشات نفسانی سے دور رکھتی ہے اور اس کے دل میں خدا کی محبت اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کی بیج بوتی ہے اور مسلمان اسی کیفیت سے اﷲ تعالیٰ کا فرمانبردار ، نیکوکار بندہ بن جاتا ہے ۔
قربانی کی عید کے موقع پر واجب قربانی دینے کے ساتھ مقصد قربانی کو سمجھنا اور اس کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا ضروری ہے نیز نفرت و دشمنی ، بغض و عناد ، عداوت و زیادتی تکبر و غکرور سے خود کو پاک کرنا بھی بڑی قربانی ہے ۔