ملک میں نفرت انگیز تقاریر

   

رام پنیانی
ہندوستان میں گزشتہ دس برسوں سے ہندوقوم پرست بی جے پی کا اقتدار ہے۔ بی جے پی دراصل سنگھ پریوار کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے۔ اس کی گود میں کھیل کود کر بڑی ہوئی باالفاظ دیگر اس کی ہی پیداوارہے آر ایس ایس کا جہاں تک تعلق ہے اس کا مقصد ہندوستان کو ہندو راشٹر (ہندو ملک) بنانا ہے۔ آر ایس ایس کی بے شمار ذیلی تنظیمیں اور ان سے جڑے ہزاروں ادارے ہیں اور لاکھوں کروڑوں والینٹرس (سوئم سیوک) ہیں۔ آر ایس ایس کے ہزاروں سینئر کارکن ہیں جنہیں پرچارک کہا جاتا ہے۔ سنگھ پریوار کی یہ سرپرست تنظیم ایک ہندو ملک سے متعلق اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھارہی ہے اور مرکز میں جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے اس معاملہ میں اس نے اپنی رفتار تیز کرلی ہے۔ اگر ہم انتخابی میدان جنگ میں بی جے پی کے ابھرنے اور اس کے ترقی پانے کے اسباب و علل کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہیکہ فرقہ وارانہ تنازعات اور مسائل میں شدت پیدا کرتے ہوئے وہ موجودہ مقام پر پہنچی ہے۔ اس نے سب سے پہلے رام مندر کا مسئلہ چھیڑا، ذبیحہ گاؤ (گائے کے گوشت) کو ایک مسئلہ بنایا، لوجہاد کے بارے میں من گھڑت اور جھوٹے دعوے کئے حالانکہ ہندوستان میں کسی بھی ریاست میں لوجہاد کا وجود ہی نہیں ہے۔ بی جے پی کے انتخابی استحکام میں اضافہ کا جو سب سے اہم پہلو ہے وہ فرقہ وارانہ تشدد ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کا جہاں تک سوال ہے اس کی بنیاد اقلیتوں سے نفرت پر ڈالی گئی۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے ملک کے معاشرہ میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے ایک اچھا خاصا میکانزم موجود ہے۔ حال ہی میں ’’انڈیا ہیٹ لیاب‘‘ کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز و اشتعال انگیز تقاریر کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ انڈیا ہیٹ لیاب واشنگٹن ڈی سی سے کام کرتی ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں جس کا عنوان ’’ہندوستان میں نفرت انگیز تقاریر و بیانات کے واقعات‘‘ ہے خاص طور پر یہ بتایا گیا ہیکہ سال 2023ء کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران نفرت انگیز تقاریر کے 255 واقعات پیش آئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے 2023ء کے دوسرے 6 ماہ کے دوران اس قسم کے ناپسندیدہ واقعات کی تعداد بڑھ کر 413 ہوگئی۔ اس طرح نفرت انگیز و اشتعال انگیز تقاریر کے واقعات میں 62 فیصد کا اضافہ ہوا۔ رپورٹ میں جو کچھ اعدادوشمار پیش کئے گئے وہ لرزہ دینے والے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جملہ 498 واقعات میں سے 75 فیصد واقعات بی جے پی کی زیرقیادت ریاستوں، مرکزی زیرانتظام علاقوں (بی جے پی کی زیرقیادت مرکزی حکومت کے زیرانتظام) اور دہلی (جہاں پولیس اور نظم عامہ مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں ہوتا ہے) میں پیش آئے۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ اشتعال انگیز و نفرت انگیز تقاریر و بیانات کے 36 فیصد (239) واقعات میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی راست اپیل کی گئی اور 63 فیصد (420) واقعات میں سازشی نظریات کے حوالے دیئے گئے ہیں خاص طور پر لووجہاد، لینڈ جہاد اور آبادی جہاد کے حوالے دیتے ہوئے اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی گئی جبکہ تقریباً 20 فیصد 169 واقعات ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بناتے ہوئے تقاریر کی گئیں۔ اس قسم کی نفرت انگیز تقاریر و بیان کے نتائج کیا برآمد ہوئے اس بارے میں ہر کوئی جانتا ہے۔ ہمیں یاد ہیکہ بی جے پی کی زیراقتدار ریاستوں میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مکانات و دوکانات کو منہدم کرنے کیلئے بلڈوزروں کا کیسے استعمال کیا گیا کیونکہ فرقہ پرستوں کو مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی ایک منٹ کیلئے بھی برداشت نہیں۔ بی جے پی کی زیراقتدار ریاستوں میں مساجد کو کئی ایک مقامات پر منہدم کیا گیا۔ مسلم تاجرین دوکانداروں کا بائیکاٹ کیا گیا اور وقفہ وقفہ سے ان کے بائیکاٹ کی درخواستیں کی گئیں۔ انتظامی مشنری بھی جزوی طور پر یہ کام کررہی ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کی اشتعال انگیز و نفرت پر مبنی تقاریر و بیانات کا مسلمانوں پر یہ اثر ہورہا ہیکہ ان میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جارہا ہے۔ ان میں خود کو الگ تھلگ کئے جانے کے بھی احساس میں اضافہ ہورہا ہے۔ نفرت پر مبنی تقاریر کی دوسری لہر مزید شدت اختیار کر گئی اس میں بہت ہی زہریلی زبان کا استعمال کیا گیا اور جب دھرم سنسد کی باری آئی تب سادھوؤں جیسے پتی نرسگھانند نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے راست طور پر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات جاری کئے۔ ان کے خلاف تشدد برپا کرنے کے پیغامات دیئے اور یہ اس وقت اپنے نقطہ عرج پر پہنچ گیا جب پارلیمنٹ نے بھی جسے جمہوریت کی مقدس مندر کہا جاتا ہے، اشتعال انگیز اور نفرت پر مبنی تقاریر اور بیانات کا اس وقت مشاہدہ کیا جب بی جے پی رکن پارلیمنٹ رمیش بدھودی نے بی ایس پی رکن دانش علی کے خلاف انتہائی گندی زبان استعمال کرتے ہوئے انہیں ’’ملا‘‘ دہشت گرد، ملک دشمن، دلال اور کٹوا (اکثر فرقہ پرست ہندو مسلمانوں کو کٹوا کہتے ہیں) کہا (اور وہ بیچارا دانش علی ایسے گالیوں کو برداشت کرتا رہا) پارلیمنٹ میں انتہائی گھٹیا زبان استعمال کرنے پر رمیش بدھوری کو ایوان سے برطرف کرنے کی بجائے اسے بی جے پی نے انعام سے نوازا، اضافی ذمہ داریاں تفویض کی۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ کس طرح بی جے پی اور آر ایس ایس میں کارکنوں و لیڈروں کا درجہ بڑھتا جارہا ہے۔ واضح رہیکہ پارلیمنٹ میں ایک مسلم رکن پارلیمنٹ کو گالی گوچ پر بدھوری کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنے کی بجائے اسپیکر لوک سبھا نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اگر دوبارہ اس غلطی کو دہرائیں تو ان کے خلاف کارروائی کرنے پر غور کیا جائے گا۔ ملک میں اشتعال انگیزی اور نفرت پر مبنی واقعات کا جہاں تک سوال ہے، ہم نے ممتاز اور مشہور و معروف مسلم خواتین کو بدنام کرنے بلی بائی اور سلی Sully Deals کا بھی مشاہدہ کیا اور سارے ملک نے دیکھا کہ اس قدر بھیانک جرم میں ملوث خاطیوں کو کوئی سنگین سزائیں چھوڑ دیا گیا بعد میں ہلدوانی کی مسجد کو شہید کئے جانے کا مسئلہ بھی زمینی سطح پر امن میں خلل پیدا کرنے کا باعث بنا۔ اس کے ساتھ ہی غیرجانبدار میڈیا کی عدم موجودگی موجودہ تناظر میں بدترین چیز بن گئی۔ بڑے بڑے چیانلوں کے اینکرس ہر برائی ہر پریشانی کیلئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دینے کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ مسلم برادری کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے ساتھ ساتھ موجودہ واقعات کے باعث اسلاموفوبیا میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ ہم ایک ٹیچر تریتا تیاگی کو دیکھ سکتے ہیں جس نے ہوم ورک نہ کرنے پر ایک مسلم لڑکے کو ایک کے بعد دیگرے لڑکوں سے تھپڑ رسید کروائے۔ اس طرح ایک اور ٹیچر منجولہ دیوی نے دو مسلم طلباء سے کہا کہ یہ تمہارا ملک نہیں ہے۔ ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ایک بس کنڈیکٹر موہن یادو کو صرف اس لئے برطرف کردیا گیا کیونکہ اس نے بس کو مختصر وقت کیلئے روکا جس کے دوران بعض مسافرین ضرورت سے فارغ ہوئے اور چند مسلمانوں نے نماز ادا کی۔ نفرت انگیز تقاریر کی ہمارے رہنماؤں نے معاشرہ کیلئے ایک لعنت کے طور پر نشاندہی کی۔ واضح رہیکہ جس وقت ایک مسلمان نے سوامی سہاجانند کو قتل کیا تھا، گاندھی نے درست طور پر اس مسئلہ کی نشاندہی کی جب انہوں نے ینگ انڈیا میں اس بارے میں ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے آپس میں نفرت و عداوت کے ماحول کو ختم کرنے پر زور دیا تھا۔ اس کیلئے انہوں نے ایک طریقہ ایک فارمولہ بتایا تھا کہ ایسے اخبارات کا بائیکاٹ کیا جائے جو نفرت پھیلاتے ہیں اور معاشرہ میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہاں گاندھی اخبارات کے منفی کردار سے متعلق بات کرررہے تھے بعد میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد گولوالکر کو لکھے گئے مکتوب میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے آر ایس ایس پر نفرت پھیلانے کا فردجرم عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس والوں کی تقاریر فرقہ وارانہ زہر سے بھری ہوتی ہیں۔ زہر پھیلانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اپنے تحفط کیلئے۔ ہندوؤں کو اکسانا اور انہیں منظم کرنا خطرناک ہوتا ہے جس سے آخر میں ملک کو نقصان برداشت کرنا پڑا اور گاندھی کی ایک قیمتی زندگی کی قربانی دینی پڑی۔
اب تو نفرت کی گھڑی پوری طرح گھوم چکی ہے۔ وہی آر ایس ایس نفرت پیدا کرنے والے میکانزم کی لہریں پیدا کرچکی ہے۔ اس کیلئے سوئم سیوکوں اور پرچارکوں کی ایک بڑی فوج، اسکولوں کے ایک بہت بڑے نٹ ورک کے ساتھ میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ اقتدار میں بیٹھے عناصر کے سامنے خود کو پوری طرح حوالے کرچکا ہے اور نفرت میں شدت پیدا کرنے ان کے اثرورسوخ کو بے تحاشہ استعمال کررہا ہے۔ نفرت اور نفرت انگیز تقاریر کا مقابلہ گاندھی کے ہندوازم، وشودھاشوا کٹم یکم اور دستور ہند کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔