ملک کی سیاسی جوڑی نمبرون ناکام

   

راج دیپ سردیسائی
پچھلے سات برسوں سے انہیں ہندوستان کی سیاسی جوری نمبرون کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کو ملک کا طاقتور ترین رہنما کہا جارہا ہے تو وزیر داخلہ امیت شاہ نے بی جے پی کے اعلیٰ انتخابی حکمت ساز کے طور پر اپنی ایک علیحدہ پہچان بنائی ہے اور اس جوڑی کو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا رہا۔ اگر مودی اور ان کی حکومت طرز حکمرانی کی اچھے دن اور نئے ہندوستان جیسے پرمجوش الفاظ کے ذریعہ شناخت کی گئی تو امیت شاہ کو ’’جدید دور کا چانکیہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
تاہم پچھلے ماہ دونوں کی جو شاندار شبیہ لوگوں کے ذہنوں میں بنائی گئی تھی، وہ شدید طور پر متاثر ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر کورونا کی دوسری لہر سے مودی حکومت کے نمٹنے سے متعلق سنگین سوالات اٹھائے گئے اور ہر خاص و عام نے مودی کی طرز حکمرانی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، وہیں مغربی بنگال میں ممتا بنرجی کی ٹی ایم سی کے مقابلہ بی جے پی کی شکست نے امیت شاہ کے امیج کو خطرہ میں ڈال دیا۔ عام طور پر امیت شاہ کے بارے میں بی جے پی اور دوسری سیاسی جماعتوں میں یہی تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ بی جے پی کو انتخابات میں کامیابی دلانے کے ماہر ہیں اور ان کی حکمت عملیوں کے باعث بی جے پی کو انتخابی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر اور مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے نتائج نے مودی اور امیت شاہ کی شبیہ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

کووڈ۔ 19 کی دوسری لہر یعنی 2-0 جیسی ایک خطرناک وباء کا کوئی آسان حل پیش نہیں کیا جاسکتا لیکن کیا اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مرکز کی ایک طاقتور سیاسی قیادت کووڈ۔19 سے مقابلہ میں بہت پیچھے رہ گئی ہے؟ اس قیادت کو کورونا پر قابو پانے میں بری طرح ناکامی ہوئی ہے! چاہے وہ کورونا وباء کو تیزی سے پھیلانے کا مسئلہ ہو یا الجھن سے پرویکسین پالیسی یا آکسیجن کی سربراہی میں بے قاعدگیاں ان تمام کیلئے مودی حکومت کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس پر الزامات کی بوچھار کردی گئی جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ عدالت نے بھی کووڈ۔ 19 پر قابو پانے لوگوں کی زندگیاں بچانے آکسیجن کی قلت دور کرنے ادویات خاص کر ویکسین کے سلسلے میں بار بار مداخلت کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو حرکت میں آنے کیلئے مسلسل جھنجھوڑا۔ عدالتوں کی بار بار مداخلت سے مرکزی حکومت اور نوکر شاہی کی ناکامیاں اُجاگر ہوتی ہیں۔ حکومت اور نوکر شاہی کے طرز عمل سے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ خود ’’اپنے منہ میاں مٹھو بننے‘‘ اور حد سے زیادہ خوداعتمادی کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ راہول گاندھی جنہیں اکثر ’’پپو‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اور خاص طور پر بی جے پی کے آئی ٹی سیل اس معاملے میں بہت آگے دکھائی دیتے ہیں۔ اب وہ (راہول) گاندھی کووڈ۔ 19 پر قابو پانے میں مودی حکومت کی ناکامیوں کو جس انداز میں پوری مہارت کے ساتھ منظر عام پر لارہے ہیں۔ اس سے بی جے پی مزید شرمسار ہوتی جارہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی جس طرح گجرات ماڈل کی رَٹ لگایا کرتی ہے، اب وہاں کے سرکاری اسپتالوں کے باہر ایمبولینسوں کی طویل قطاروں سے ترقی کے اس ماڈل کی قلعی بھی کھل گئی ہے اور وہاں جس طرح کی ترقی ہوئی ہے۔ اس کا تاریک رخ سب کے سامنے آگیا ہے اور پتہ چل گیا ہے کہ حکومت گجرات نے صحت عامہ کے شعبہ میں کچھ زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ صرف اور صرف دعوے کرتی رہی۔ بی جے پی مغربی بنگال میں بھی اپنے پارٹی قائدین اور کارکنوں کی ایک بڑی فوج لے کر انتخابی جنگ لڑنے کیلئے داخل ہوئی تھی۔ وہ لوگ یہ بھول گئے کہ اسمبلی انتخابات اور لوک سبھا انتخابات میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور یہ انتخابات الگ الگ انداز میں لڑے جاتے ہیں۔ بی جے پی نے مغربی بنگال میں تخریبی طریقہ کار اختیار کیا۔ 2020ء میں بی جے پی قائدین اور کارکنوں نے مغربی بنگال میں جئے شری رام کے نعرے لگائے اور وہ اس وقت موثر بھی ثابت ہوئے لیکن اس مرتبہ جئے شری رام کا نعرہ بھی بی جے پی کو انتخابی شکست سے نہیں بچا سکا۔

مغربی بنگال میں بی جے پی کیلئے کوئی مضبوط اور معتبر چہرہ بھی نہیں تھا، نتیجہ میں اس نے چیف منسٹر ممتا بنرجی کے بااعتماد رفقاء کو بغاوت کیلئے مجبور کیا اور ان کی وفاداریاں تبدیل کی۔ اس طرح بی جے پی نے اپنے حدود کو ظاہر کردیا۔ حالانکہ اس حکمراں جماعت نے حقیقی تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ ممتا بنرجی کے اہم و بااعتماد رفقاء کا انحراف اس کیلئے ایک حقیقی تبدیلی تھی۔ ایک طرف ممتا بنرجی جیسی خاتون وہیل چیئر پر بیٹھی مہم چلا رہی تھی اور دوسری طرف بی جے پی کے طاقتور مرد قائدین رتھ پر بیٹھے لوگوں کو بی جے پی کے حق میں ووٹ استعمال کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ یہاں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستانی سیاست کی یہ جوڑی نمبر ون کیا اپنے قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور ہوئی ہے؟ مودی حکومت کو پہلے سے ہی کورونا وباء سے نمٹنے میں ناکامی کیلئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اس کے باوجود یہی کہا جارہا ہے کہ نریندر مودی اب بھی مقبول ترین لیڈر ہیں۔ مغربی بنگال میں لاکھ کوششوں کے باوجود امیت شاہ اور بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ، اب وہ بلاشک و شبہ اترپردیش کی انتخابی جنگ لڑنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ ملک میں صحت عامہ کی بنیادی سہولتیں انتہائی ناقص ہیں، جس پر شہری کافی برہم ہوگئے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ ایمرجنسی کی صورتحال کا ہم سامنا کررہے ہیں اور لاکھوں افراد وینٹیلیٹرس پر اپنی زندگی کے آخری دن گن رہے ہیں۔ دہلی ہائیکورٹ نے مرکزی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے بہت خوب کہا کہ ایک ایسے وقت جبکہ لوگ آکسیجن اور آئی سی یو بیڈس کیلئے تڑپ رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ حکومت خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہے ، فی الوقت عوامی شکایات کو دُورکرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے حکومت کو ہمدردانہ رویہ اور تھوڑی سی عقل سے کام لینا چاہئے ناکہ نوکرشاہی اور ظالمانہ طریقے سے۔ جہاں تک مطلق العنانی اور آمرانہ ذہنیت کا سوال ہے، اس ذہنیت کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی قسم کی تنقید کو یہ لوگ قوم دشمن قرار دیتے ہیں۔ اس طرح کا رجحان بہت خطرناک ہے جبکہ سارا ملک آکسیجن کی قلت سے دوچار ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس چیز نے وزیراعظم کو کلیدی شعبوں کے اہم ترین ذہنوں کو ایک مقام پر لاکر مسائل حل کرنے سے روکا ہے۔ اگر قابل ترین لوگ ایک ساتھ ہوجاتے ہیں تو اس سے ہم اپنی غلطیوں کو سدھار سکتے ہیں اور لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ یہ موقع فیصلہ سازی کو غیرمرکوز کرنے اور خلیج کو پاٹنے کا ہے۔ ویسے بھی اب وقت آگیا ہے کہ مودی حکومت اپنا محاسبہ کرے اور عوام کو آکسیجن کی قلت سے بچائے۔ کورونا کے خطرے کے پیش نظر انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) معطل کردی گئی۔ ایسے میں حکومت کو یہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ دہلی میں سنٹرل ویسٹا تعمیری پراجیکٹ کو بھی روک دے۔