ملک کی معیشت اور مودی حکومت کے کھوکھلے دعوے

   

پی چدمبرم سابق مرکزی وزیر داخلہ
وزیراعظم نریندر مودی اپنی تقاریر اور بیانات میں بڑی ہوشیاری کیساتھ الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اور خود کا ’میں‘ یا ’مجھے‘ جیسے الفاظ کے ذریعہ حوالہ دینے کے بجائے تیسرے فرد کے طور پر حوالہ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی ہے ، وہ یہ کہ وزیراعظم اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارٹی میں ان کی تعریف و ستائش کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ اس معاملہ میں تو پارٹی قائدین ایک دوسرے پر مسابقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بی جے پی قائدین پر کامیابی کا سہرا وزیراعظم نریندر مودی کے سر باندھنے میں کسی قسم کی تاخیر نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ناکامی یا بدنامی کا ٹوکرا دوسروں کے سر پر انڈیلنے میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتے۔ ہرحال جہاں تک اپنی بجائے تیسرے شخص کے حوالہ سے خود کو پیش کرنے کا سوال ہے دراصل یہ ایک عادت ہے اور اس عادت کے لیے انگریزی میں ایک لفظ Illeism استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ کہ ان کی اس عادت کو سمجھنا مشکل ہوسکتا ہے لیکن یہ اچھی طرح ثابت ہوچکا ہے کہ حقیقت میں مودی ہی ہندوستان کی حکومت ہے اور وہی ( مودی) حکومت کی تمام اچھائیوں اور برائیوں یا با الفاظ دیر کامیابیوں و ناکامیوں کے لیے ذمہ دار ہیں۔ تمام دوسرے وزراء (سوائے امیت شاہ کے) پارٹی قائدین، ارکان پارلیمان یہاں تک کہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے وزرائے اعلی غیر ضروری ہوکر رہ گئے ہیں۔ یعنی پارٹی میں وزیراعظم نریندر مودی کے سامنے ان کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ مودی جی کے سامنے غیر ضروری و غیر اہم بنادیئے جانے پر خوش دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے ہم اپنی درخواستیں یا تنقیدوں کے لیے صرف وزیراعظم کو خطاب کرتے ہیں، ان سے درخواستیں کرتے ہیں انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ایک نیا نعرہ ایجاد کیا ہے جو اس طرح ہے ’’ترقی یافتہ بھارت‘‘ آپ کو یاد ہوگا کہ 2014ء سے مودی جی نے قوم کو بہت سارے نعرے دیئے ہیں اور پہلا نعرہ ’’اچھے دن آنے والے ہیں‘‘ مجھے امید ہے کہ یہ نعرہ آخری نعرہ ہے۔ بے شمار نعرے جو مودی نے لائے وہ اپنی تاثیر کھوچکے ہیں۔ ترقی یافتہ ہندوستان ایک مقصد ہے جس کے بارے میں وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ بھارت 2047ء تک اپنے اس مقصد (ترقی یافتہ بھارت) کو پہنچ جائے گا۔ اب اور 2047ء کے درمیان جو بھی حکومت میں ہو بھارت اب 2024ء میں جس حالت میں ہے 2047ء میں ایک ترقی یافتہ ملک ہے جیسا کہ 1947 اور 2024 کی مدت میں بھارت کس مقام پر تھا اور کہاں پہنچ گیا۔
جہاں تک ترقی کا معاملہ ہے اس کے لیے سب سے پہلے ایک ہدف مقرر کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ہمیں ایک مقصد کا تعین کرنا ضروری ہے۔ اس کی مثال ہم Goal Post کے ذریعہ دے سکتے ہیں اور یہ ایک ہی مقام پر فکسڈ رہتا ہے۔ اس طرح وہ متحرک گول پوسٹ نہیں ہوسکتا۔ مودی حکومت نے معیشت کو 5 کھرب ڈالرس تک پہنچانے کے دعوے کئے تھے اور اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ سال 2023-24ء میں ملک کی معیشت 5 کھرب ڈالرس تک پہنچ جائے گی لیکن قدم بہ قدم آگے بڑھتی ہوئی سال 2027-28 میں ملک کی معیشت 5 کھرب ڈالرس ہونے کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔ آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ 2023-24ء کے ختم تک بھارت کی قومی مجموعی پیداوار کا حجم 172لاکھ کروڑ روپئے ہوجائے گا جو موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق 3.55 کھرب ڈالرس کے مساوی ہے اور زرمبادلہ کی شرح مختلف شرح نمو پر ہی رہتی ہے تو پھر 5 کھرب ڈالرس معیشت کا ہدف مختلف برسوں میں پورا ہوگا۔ اس معاملہ میں ہم یہ دیکھیں گے کہ شرح نمو کتنے فیصد ہے کتنے سال کا نشانہ ہوگا اور اس مقصد تک کون سے سال میں پہنچاجائے گا۔ مثال کے طور پر شرح نمو 6 فیصد ہے اس کے لیے 6 سال کا ہدف مقرر کیا گیا اور اس ہدف کی تکمیل کا سال 2029-30ء مقرر کیاگیاہے۔ اس طرح شرح نمو 7 فیصد کے لیے 5 سال کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جبکہ اس ہدف کی تکمیل کا سال 2028-29 ء مقرر کیا گیا۔ اس طرح 8 فیصد شرح نمو کے لیے 4.5 سال مقرر کیا جاتا ہے تو جو ہدف مقرر کیا گیا ہے وہ ستمبر 2028ء میں پورا ہوگا۔ اگر ڈالر، روپیہ ایکسچینج ریٹ کی حالت ابتر ہوتو پھر گول پوسٹ کو مزید پیچھے لے جانا ضروری ہے۔ اگر ہم گزشتہ دس برسوں کے دوران بی جے پی / این ڈی اے حکومت کے ریکارڈ کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کی کارکردگی متاثر کن نہیں رہی جبکہ یو پی اے کا ریکارڈ نئی سیریز کے تحت 6.7 فیصد (پرانی سیریز کے تحت یہ 7.5 فیصد تھا) رہا۔ جہاں تک این ڈی اے حکومت کا سوال ہے این ڈی اے حکومت اپنے دس سالہ دور اقتدار میں شرح نمو صرف 5.9 فیصد ہی درج کرواسکی۔ اب سوال یہ پیدا ہوگا کہ آیا بی جے پی شرح نمو کو بڑھانے کے قابل ہوگی؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا بی جے پی میں کوئی بھی جواب نہیں دے سکتا کیوں کہ شرح نمو خارجی عوامل پر منحصر ہوگی۔ ساتھ ہی معیشت کے گھریلو نظم پر بھی اس کا انحصار ہوتا ہے جبکہ غیر یقینی الگ ہے اگر مودی کو تیسری میعاد کے لیے کامیابی ملتی ہے اور معیشت سالانہ 8 فیصد کے حساب سے نمو پاتی ہے تو پھر بھارت کی قومی مجموعی پیداوار ان کی تیسری میعاد کے 5 سال میں بڑی مشکل سے 5 کھرب ڈالرس تک پہنچے گی۔ مثال کے طور پر ملک کی معیشت سال 2028-29ء میں 5 کھرب ڈالرس کی سطح پر پہنچے گی تب کیا بھارت کو ایک ترقی یافتہ ملک کہا جاسکتا ہے؟ 5 کھرب ڈالرس کی معیشت اور 2028-29ء میں 1.5 ارب کی آبادی کے ساتھ فی کس اوسط آمدنی 3333 امریکی ڈالرس ہوگی۔ ان حالات میں بھارت کو کمتر اوسط آمدنی کی حامل معیشت کے زمرے میں ڈالا جائے گا۔ فی کس اوسط آمدنی کی بنیاد پر دنیا کے ملکوں میں بھارت کا مقام 140 واں ہے (عام شرائط کے تحت) سال 2028-29 ء میں بھارت کے مقام میں 5 تا 10 مقامات تک بہتری آسکتی ہے۔
متعلقہ سوالات :
ذیل میں ایسے سوالات ہیں جو معیشت سے متعلق ہیں اور جن پر آئندہ انتخابات میں بحث ہونی چاہئے یا انہیں انتخابی مہم کے دوران موضوع بحث بنایا جانا چاہئے۔ (1) ہمہ جہتی، غربت یقیناً بھارت پر ایک دھبہ ہے اور 22 کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بھارت کے ماتھے پر موجود ’غربت‘ کا یہ دھبہ کب مٹے گا؟ یو این ڈی پی کے مطابق 27 کروڑ بھارتی شہریوں کو 2005-2015ء کے درمیان خط غربت سے باہر نکالا گیا۔ ان حالات میں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب جو 22 کروڑ لوگ خط غربت کے نیچے زندگی گزاررہے ہیں انہیں کب خط غربت سے نکالا جائے گا۔ (2)ہمارے ملک میں بیروزگاری کی موجودہ شرح (8.7 فیصد) ہے جس نے لاکھوں کروڑوں زندگیوں کو تباہ کردیا ہے بیروزگاری کی اسی شرح کے نتیجہ میں بہترین کوالیفائیڈ (قابل و لائق) نوجوانوں اور نیم ہنرمند ورکروں کی دوسرے ملکوں کو منتقلی عمل میں آرہی ہے۔ وہ بیرونی ملکوں کو منتقل ہوکر اپنا مستقبل روشن بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح کے باعث ہی جرائم میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ آخر کب ہمارے نوجوانوں کو اپنے ہی ملک میں روزگار کے بہتر مواقع حاصل ہوں گے؟ کب ہم اس شرمناک رجحان سے بچ پائیں گے جس میں واچ میان اور ریلوے ٹریک مینٹینر (گینگ میان) کے عہدوں کے لیے پوسٹ گریجویٹس اور پی ایچ ڈی امیدوار درخواستیں دیتے ہیں۔ (3)آخر کب لیبر فورس پارٹسپیشن ریٹ (LFPR) 50 یا 60 فیصد سے زیادہ ہوگا؟ کب خاتون افرادی قوت کی شراکت کی شرح LFPR پچیس فیصد سے زیادہ ہوگی؟(4 ) ویج گڈس کی نجی کھپت یا استعمال میں اضافہ کب ہوگا؟ اور کب ہمارے ملک کے غرباء اپنے خاندانوں کے لیے کافی اناج خریدنے کے قابل ہوں گے؟
(5) حقیقت میں تنخواہوں کا انجماد کب ہوگا؟ جہاں تک بیروزگاری اور افراط زر (مہنگائی) کا سوال ہے یہ عوام کے لیے فکر و تشویش کا باعث بنی ہوئی دو چیزیں ہیں، میں یاد نہیں کرسکتا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے کب ان دو سلگتے مسائل پر بات کی ہے۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ عزت مآب وزیراعظم نے بھارتی علاقوں میں چین کی دراندازی، منی پور کے تشدد، سیاسی انحراف، سیاسی جماعتوں کو توڑنے ، حق خلوت، اخلاقی پولیس اور بلڈوزر انصاف پر کبھی کچھ کہا ہوگا؟ سیاسی جماعتوں کو یہ مسائل بار بار اٹھانے چاہئے۔ وزیراعظم کی خاموشی توڑنی چاہئے۔