ممتابنرجی کی انتخابی تیاریاں

   

بڑے حوصلے ہیں بڑے ولولے ہیں
مگر وہ شبِ انتظار آ نہ جائے
ممتابنرجی کی انتخابی تیاریاں
چیف منسٹر مغربی بنگال و ترنمول کانگریس سربراہ ممتابنرجی نے پارٹی میں تبدیلیوں کے ذریعہ اپنی انتخابی تیاریوں کا عملا آغاز کردیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے انتخابی حکمت عملی کے ماہر پرشانت کشور کے مشوروں پر پارٹی میں نئے تقررات اور تبدیلیوں کا آغاز کردیا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں بی جے پی نے بنگال کو نشانہ پر رکھتے ہوئے اپنی انتخابی حکمت عملی کو واضح کردیا تھا ۔ بنگال کے بی جے پی قائدین اور خاص طور پر ریاستی یونٹ کے صدر اور دوسرے سرکردہ نمائندوں کی جانب سے اشتعال انگیز ریمارکس کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ بی جے پی اپنی پرانی روش اور سابقہ حکمت عملی کے تحت ہی بنگال میں بھی انتخابات کا سامنا کرنا چاہتی ہے جو آئندہ سال ہونے والے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں خاطر خواہ نشستوں سے کامیابی کے بعد بی جے پی کے حوصلے بنگال کے تعلق سے بلند ہوگئے ہیں اور بی جے پی کا خیال ہے کہ وہ اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعہ اور شدت کے ساتھ انتخابی مہم چلا کر ممتابنرجی کو شکست دے سکتی ہے ۔ بنگال کے عوام کا ووٹ حاصل کرنے میں اسے کامیابی مل سکتی ہے ۔ ممتابنرجی بھی حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی سیاسی قائدین میں ہیں۔ بنگال میں ان کی گرفت انتہائی مضبوط رہی تھی لیکن لوک سبھا انتخابات میں انہیں عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ خاطر خواہ تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائی تھیں۔ انہیں مرکزی حکومت کی جانب سے بھی شدید تنقیدوں کا سامنا ہے ۔ ریاستی گورنر سے بھی ان کے تعلقات اچھے نہیں رہ گئے ہیں۔ سارے حالات کو دیکھتے ہوئے مختلف گوشوں میں مختلف قیاس آرائیاں بنگال کے تعلق سے جاری تھیں لیکن ممتابنرجی نے انتخابی حکمت عملی کے ماہر پرشانت کشور کی خدمات حاصل کی اور خاموشی سے اپنی تیاریوں کا انہوں نے آغاز کردیا تھا ۔ اب پرشانت کے کشور کے مشوروں پر مختلف اقدامات کا بھی آغاز کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے پارٹی سطح پر اہم تقررات عمل میں لانے کا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ انہوں نے سابق کرکٹر لکشمی رتن شکلا اور شعلہ بیان مقرر و رکن لوک سبھا مہوا موئترا کو ریاست میں اہم اضلاع کی ذمہ داری سونپی ہے۔
اس کے علاوہ ممتابنرجی نے علاقائی جذبات کو ابھارنے کا بھی سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ انہوں نے گذشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا تھا کہ ملک کی ساری ریاستوں میں گجرات کی حکمرانی کیوں ہونی چاہئے ۔ ان کا اشارہ امیت شاہ اور نریندر مودی کے گجرات سے تعلق پر تھا ۔ ممتابنرجی کو بھی یہ احساس ہے کہ لوک سبھا انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی نہ ملنے سے ترنمول کیڈر کے حوصلے بلند ہیں اور بی جے پی کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی اور اس کے قائدین بھی ترنمول کانگریس اور ممتابنرجی حکومت کو مسلسل نشانہ بھی بناتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں عوام کو علاقائی جذبات پر لانا ترنمول کانگریس کیلئے فائدہ مند ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نریندر مودی اور امیت شاہ کی آبائی ریاست کے تعلق سے سوال کیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ انتخابی حکمت عملی کے تحت ہی ممتابنرجی نے اس طرح کا ریمارک کیا ہے اور وہ ریاست میں اسمبلی انتخابات تک اس نعرہ کو وقفہ وقفہ سے ابھارتے ہوئے عوام میں علاقائی جذبات کو مزید تقویت دینا چاہتی ہیں۔ یہ سارا کچھ انتخابی حکمت عملی کے تحت کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعہ بی جے پی کو ریاست میں کامیابی حاصل کرنے سے روکنا ہی ان کا مقصد ہے ۔ اس کے علاوہ ممتابنرجی مسلسل عوام کے درمیان رہتے ہوئے بھی ان کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
ترنمول کانگریس میں ہوئی تبدیلیوں میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ یہ قائدین ووٹوں کے تناسب کو پارٹی کے حق میں بہتر بناسکیں۔ لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو 40.64 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے جبکہ ترنمول کانگریس کو 43.69 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے ۔ ممتابنرجی چاہتی ہیں کہ بی جے پی کے ووٹوں کے تناسب کو ترنمول کانگریس کے حق میں کیا جائے اور بی جے پی کو انتخابی کامیابی حاصل کرنے سے روکا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوںنے پارٹی کی یوتھ ونگ میں بھی تبدیلیاں کی ہیںاور کئی ضلعی صدور کو تبدیل کرتے ہوئے نئے چہرے متعارف کروائے ہیں۔ بحیثیت مجموعی ممتابنرجی بنگال میں اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کیلئے تیاریوں میں جٹ گئی ہیں اور ایک جامع حکمت عملی بنالی گئی ہے ۔ یہ حکمت عملی کتنی کارگر ہوگی یہ انتخابی نتائج سے پتہ چلے گا ۔