ممتابنرجی کی کامیابی، آر ایس ایس خوش

   

اشوتوش
مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کرتے ہوئے ممتابنرجی کی ٹی ایم سی نے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ شائد بی جے پی نے بھی یہ تصور نہیں کیا تھا ہوگا کہ ٹی ایم سی کو اس قدر واضح اکثریت سے کامیابی ہوگی۔ اگرچہ بی جے پی نے بھی ریاستی اسمبلی میں اپنے ارکان کی تعداد 3 سے بڑھاکر 77 کرلی ہے۔ اس کا مظاہرہ یقینا بہتر کہا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی خاص کروزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کو ممتا اور ٹی ایم سی کی یہ کامیابی ہضم نہیں ہو پارہی ہے۔ شاید وہ دونوں اور بی جے پی قائدین مغربی بنگال میں ممتا کی کامیابی پر صدمہ سے دوچار ہیں جس کا اندازہ پارٹی قائدین اور کارکنوں کی حالت زار سے ہوتا ہے۔ بی جے پی کے دفاتر ویران ہوچکے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اس پر ایک غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کے نتائج مودی کے لئے پریشانی، صدمہ غصہ و برہمی کا باعث ہو لیکن آر ایس ایس سربراہ اس سے شاید خوش ہوئے ہیں۔ ممتا کی کامیابی پر آر ایس ایس سربراہ کی خوشی یہ سن کر یا پڑھ کر ہی کئی لوگوں کو تعجب ہو رہا ہوگا لیکن جو آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی یا نظریات کو سمجھتے ہیں میرے اس بیان کو تسلیم کریں گے۔ مودی اور بی جے پی سیاسی کردار ہیں سیاسی لوگ اور سیاسی جماعت ہیں ان کا اول و آخر جو مقصد ہوتا ہے وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا حکومتیں تشکیل دینا ہوتا ہے لیکن آر ایس ایس کا اول و آخر مقصد اقتدار حاصل کرنا نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کا مقصد اس کی اولین ترجیح ہندوستان کو ایک ہندو ملک بنانا ہے۔ ان کا ہدف صرف اور صرف ہندو شعور کو جگانا اور ہر ہندو میں یہ احساس پیدا کرنا ہوتا ہیکہ وہ اس حقیقت کو جان لے کہ وہ (ہندو) فخریہ طور پر ایک ہندو ہے۔ وہ چاہتی ہیکہ ہر ہندو فخر سے کہے کہ ہم ہندو ہیں، چنانچہ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں ہم سب نے دیکھا کہ ممتابنرجی نے جلسوں میں چندی پتھ پڑھی اور خود کو ایک برہمن قرار دیا، ان کے اس اقدام اور اعلان سے یقینا آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کو دلی مسرت ہوتی ہوگی۔
ویسے بھی ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ انتخابات میں وہ اپنی ہندو شناخت ظاہر اور ثابت کرنے والی پہلی لیڈر نہیں ہے اس سے پہلے چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال کو ہنومان چالیہ پڑھتے سنا گیا اور راہول گاندھی کو مندروں پر حاضری دیتے ہوئے اور اپنے جسم پر بندھے جانے والے مقدس دھاگے کو دکھاتے ہوئے دیکھا گیا۔ آر ایس ایس کو ایسے بھی اس بات کی بہت زیادہ پریشانی تھی کہ آزادی کے بعد سے ہمارے سیاسی قائدین خود کو ہندو شناخت ظاہر کرنے میں ایک مسئلہ درپیش تھا۔ اس کے برعکس دوسرے مذاہب کے قائدین ہمیشہ اپنی مذہبی شناخت ظاہر کرنے میں آگے رہتے ہیں اور اپنے مذہب پر فخر کرتے ہیں۔ بہرحال اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیکر آگے بڑھتے ہیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اب صرف بی جے پی یا آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے قائدین ہی اپنے ہندو ہونے پر فخر نہیں کرتے بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی اپنے ہندو ہونے پر فخر کرنے لگے ہیں۔ وہ اپنی ہندو ہونے کے اظہار میں پہلے کی طرح نہیں شرما رہے ہیں۔ خاص طور پر یہ سیاسی قائدین برسر عام اور انتخابات کے دوران اپنی مذہبی شناخت کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں اگر ممتابنرجی خود کو برہمن کہتی ہیں مذہبی اشلوک پڑھنے لگتی ہیں، انتخابات میں ان کی پارٹی کو شاندار کامیابی حاصل ہوتی ہے تو پھر آر ایس ایس کو خوش کیوں نہیں ہونا چاہئے۔ آج مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین ہندوتوا کے قریب آئے ہیں۔ اپنے ہندو ہونے کا فخر یہ اعلان کررہے ہیں تو ہم یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ 1925 میں اپنے قیام سے ہی آر ایس ایس تو یہی چاہتی تھی۔ اس نے اپنے مقصد کی تکمیل کرلی ہے۔ اب بی جے پی کے فکر مند ہونے کی باری ہے کیونکہ اب ہندوتوا پر صرف اس کی اجارہ داری باقی نہیں رہی۔ اروند کجریوال جیسا لیڈر بھی مذہبی باتیں کرنے لگا ہے اور انہوں نے تو یہ بھی اعلان کردیا ہیکہ دہلی کے ہندووں کو رام مندر بھیجنے کے لئے خصوصی پیکیج دیا جائے گا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ 2016 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو صرف تین نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اور 10 فیصد ووٹ اس کے حصہ میں آئے تھے لیکن 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں اس نے شاندار بلکہ حیرت انگیز مظاہرہ کیا۔ 18 نشستوں پر اس کے امیدوار کامیاب ہوئے اور 40 فیصد ووٹ حاصل کرکے اس نے سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا۔ اسمبلی انتخابات میں بھی اس کے لئے نتائج حوصلہ افزاء رہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بنگال کے بارے میں کافی پرجوش تھی۔ اس لئے اس نے بنگال اسمبلی انتخابات میں اپنی ساری طاقت جھونک دی۔ اسے امید تھی کہ بنگال اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے وہ ہندوستانی سیاست میں ایک بڑی ہلچل مچادے گی، لیکن ممتابنرجی کی زیر قیادت ٹی آیم سی نے شاندار کامیابی حاصل کرکے خود بی جے پی کے خیموں میں ہلچل مچادی ہے۔
ان انتخابات میں بی جے پی ابتداء سے ہی اپنی پالیسیوں کے باعث معذور ہو گئی تھی اور اس کی وجہ نظریاتی تھی۔ نظریاتی وجوہات کے باعث اس نے مسلم رائے دہندوں کو راغب کرنے میں یقین نہیں رکھا ویسے بھی وہ مسلم رائے دہندوں تک رسائی حاصل کرنے میں یقین نہیں رکھتی۔ اس نے مسلمانوں سے ووٹ بھی طلب نہیں کئے۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 27 فیصد ہے اور بعض اندازوں کے مطابق اس ریاست میں 30 فیصد مسلم آبادی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی کو اسی صورت میں کامیابی مل سکتی ہے جب وہ مابقی آبادی کے 50 فیصد کو مذہبی خطوط پر باٹنے میں کامیاب ہوتی۔ بی جے پی نے ان انتخابات میں ہندو رائے دہندوں کو متحد کرنے کی جان توڑ کوشش کی۔ اس نے ممتابنرجی کو مسلمانوں کی لیڈر کی حیثیت سے پیش کرنے کی بھی پوری پوری کوشش کر ڈالی۔ ان پر مسلمانوں کی خوشامدی کے الزامات عائد کئے اور یہاں تک کہا کہ اگر ممتابنرجی دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو ہندو محفوظ نہیں رہیں گے۔ بی جے پی والوں نے ممتابنرجی کو بیکم ممتا کے نام سے بھی پکارا۔ ہندو رائے دہندوں کو بتایا گیا کہ وہ مسلم خواتین کی طرح حجاب کرتی ہیں۔ چنانچہ ممتابنرجی یہ اچھی طرح جانتی تھی کہ کس طرح بی جے پی کے ان الزامات کا منہ توڑ جواب دیا جائے۔ ممتا کو یہ بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ مسلمانوں پوری طرح ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسے میں اب انہیں ہندو رائے دہندوں کو راغب کرنا ضروری ہے اور انہیں یہ بتانا ضروری ہیکہ بی جے پی جس طرح انہیں ہندوؤں کی دشمن کے طور پر پیش کررہی ہے وہ بالکل غلط ہے اور پھر ممتا نے چندی پتھ پڑھنا شروع کردیا۔ دوسری پارٹیوں کی بہ نسبت بی جے پی کی جھولی میں اقلیتوں کے صفر ووٹ ہیں ایسے میں ممتا کے جوابی وار نے بی جے پی کی مہم کو بری طرح ناکام کردیا۔ اسے ہندووں اور مسلمانوں کے ووٹ ملے جبکہ بی جے پی صرف ہندو ووٹس پر تکیہ کرسکتی۔ بی جے پی کی شکست کی دوسری وجہ یہ بھی رہی کہ ممتا نے خود کو متاثر کی حیثیت سے پیش کیا اور لوگوں کو بتایا کہ بی جے پی بنگال پر قبضہ کرنے کی خواہاں ہے اور وہ ہر حال میں اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ممتابنرجی نے اس سلسلہ میں ریاست میں مرکزی فورس کی تعیناتی، 8 مرحلوں کے تھکا دینے والی رائے دہی، ریاست کے امور میں مرکز کی بار بار مدافعت کو عوام کے سامنے بہتر انداز میں پیش کرتے ہوئے خود کو مظلوم بتایا۔ انہوں نے وزیر داخلہ امیت شاہ پر سی آر پی ایف اور سی آئی ایس ایف کے ذریعہ اقتدار کا بیجا استعمال کرنے کا المام بھی عائد کیا۔ اس معاملہ میں عوام کی ہمدردیاں ممتا کو اس وقت حاصل ہوئیں جب سیتالکچی میں CISF کے ہاتھوں چار افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری طرف بی جے پی نے ٹی ایم سی لیڈروں کو نشانہ بنانے کے لئے مرکزی ایجنسیوں کی تحقیقات کو بھی استعمال کیا۔ خود ممتابنرجی کے بھتیجے ابھیشیک بنرجی کو کرپشن کے مقدمات میں ماخوذ کیا۔ ان کے رشتہ داروں کے مکانات پر دھاوے کروائے،۔ مدن مترا جیسے دوسرے لیڈروں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا۔ ممابنرجی نے ان انتخابات میں بنگالی قوم پرستی کا کارڈ بھی بڑی ہشیاری سے کھیلا اور عوام کو بتایا کہ بی جے پی ہنگامی تہذیب پر ڈاکہ ڈالنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ بی جے پی کو بنگال اور بنگالیوں کی عظیم روایات اور تہذیب سے کوئی واقفیت نہیں۔ ممتا بنرجی نے عوام کو یہ بتانے میں بھی کامیابی حاصل کی کہ بنگال کو دہلی اور گجرات کے لیڈروں سے خطرات لاحق ہے۔ جیسے مودی نے 2002 کے انتخابات میں گجرات کا کارڈ کھیلا تھا۔ بی جے پی نے بنگال میں جئے شری رام کا نعرہ لگایا۔ یہ نعرہ شمالی میں چل سکتا ہے۔ بنگال میں نہیں کیونکہ بنگال میں درگا کے نعرے لگتے ہیں۔ درگا بنگالی روایات کا ایک اٹوٹ حصہ ہے جس وقت بی جے پی قائدین جئے شری رام کے نعرہ لگارہے تھے ممتابنرجی نے بڑی ہوشیاری سے لوگوں کو بتایا کہ رام درگا کی پوجا کرتے تھے۔