مندروں کا افتتاح مودی کی کامیابی نہیں

   

رام پنیانی
سال 2024ء کے پہلے ماہ یعنی جنوری کی 22 تاریخ کو ایودھیا میں رام مندر کی پران پرتشٹھا (افتتاحی تقریب) منعقد ہوئی اور اس تقریب کو بڑے پیمانے پر منعقد کرنے اور اسے تمام لوگوں کی توجہ کا مرکز بنانے کی پوری پوری کوشش کی گئی اس کیلئے ملک کے بیشتر حصوں میں مذہبی تزک و احتشام کا مظاہرہ کیا گیا خاص طور پر شمالی ہندوستان میں اس تقریب کو اس انداز میں منایا گیا جیسے ہندوستان میں اب کچھ نہیں صرف مذہبی جنون ہی باقی رہ گیا ہے۔ اس تقریب کی خاص بات یہ رہی کہ وزیراعظم نریندر مودی کو بہ یک وقت ایک مذہبی سربراہ اور سیاسی سربراہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا اور عوام میں یہ تاثر پیدا کیا گیا جیسے وزیراعظم نریندر مودی ہی تمام کی توجہ کا مرکز ہیں۔ وہی واحد سیاسی قوت ہے ان کے سامنے بی جے پی یا پھر اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کی کوئی حیثیت نہیں اس کے ساتھ ہی ملک میں اگر کوئی ہیرو ہے تو مودی ہے اور پارٹی سے لیکر حکومت میں ون میات شو چل رہا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ایک منصوبہ بند طریقہ سے رام مندر کی افتتاحی تقریب کی تاریخ مقرر کی گئی۔ اس مندر کا افتتاح کرنے کے بعد مودی جی متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی پہنچے اور وہاں انہوں نے 27 ایکڑ اراضی پر تعمیر کردہ مغربی ایشیاء کی سب سے بڑی مندر کا افتتاح انجام دیا۔ اس تقریب کی بھی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی اس کے بعد چمبل کاکی دھام میں ایک اور مندر کی تقریب سنگ بنیاد مقرر کردی گئی۔ مودی ہی کے ہاتھوں سلسلہ وار مندروں کے افتتاح سے متاثر ہوکر دائیں بازو کے کئی نظریہ ساز اور اس نظریہ پر بڑی سختی سے جمے ہوئے تنظیموں اور افراد یہ دعویٰ کرنے لگے ہیں کہ مودی مابعد نوآبادیاتی معاشروں میں وہ پہلے سیاستداں ہیں جنہوں نے ان معاشروں کو تہذیب و تمدن اور ثقافت کو غیر نوآبادیاتی سمت کی جانب آگے بڑھایا ہے۔
اب ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوآبادیاتی دور نے خاص طور پر جنوبی ایشیا کو کیسے متاثر کیا ہے؟ اگر دیکھا جائے تو جنوبی ایشیاء میں ہمیشہ سے ہی جاگیردارانہ قسم کے معاشرہ کی بالادستی رہی ہے۔ کرہ ارض کے اس حصہ میں زمیندار و جاگیردار، بادشاہوں، راجہ رجواڑوں اور نوابوں نے حکمرانی کی۔ خاص طور پر برصغیرہند میں ایسا ہی رجحان دیکھا گیا۔ ان حکمرانوں کی سب سے زیادہ توجہ اس علاقہ کی دولت کو لوٹنے پر مرکوز رہی اس کے ساتھ ہی برطانیہ میں تیار کردہ مصنوعات کی فروخت کیلئے نئے نئے بازاروں کے قیام پر بھی ان کی توجہ مرکوز رہی۔ اس کیلئے نوآبادیاتی ریاست کی ساخت تیار کرنی پڑی۔ نتیجہ میں ٹرانسپورٹ (حمل ونقل) تعلیم اور عصری انتظامیہ معرض وجود میں آیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ نوآبادیاتی ریاست کی ساخت تیار ہونے کے بعد اس ریاست میں حمل و نقل، تعلیم اور ایڈمنسٹریشن کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ساتھ اس ریاست میں ان لوگوں نے ستی جیسی کئی ظالمانہ رسموں کا خاتمہ کیا۔ اس بارے میں ہم جیوتی راؤ پھولے، ساوتری بائی پھولے، امبیڈکر اور گاندھی کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جنہوں نے دوردراز علاقوں میں پہنچ کر معاشرہ میں اصلاحات اور تہذیبی و ثقافتی تبدیلیاں لائیں۔ واضح رہے کہ معاشرہ کا کلچر کوئی جامع چیز نہیں ہے۔ معاشرہ کی تہذیب و تمدن میں نوآبادیاتی دور کے دوران کئی طرح سے تبدیلیاں آئیں جبکہ مغرب کی اندھی تقلید تہذیبی تبدیلی کا چھوٹاس سا حصہ تھا جبکہ اس کے ساتھ جو بڑا حصہ تھا اس کا سفر دراصل ایک ایسی سوسائٹی یا معاشرہ کی طرف تھا جس میں مساوات کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ ایک اور تلخ حقیقت یہ تھی کہ ہندوستان میں عصری صنعتی معاشرہ کے تئیں یہ معمولی اقدامات تھے لیکن ان اقدامات کو قدامت پسند سیاسی طاقتیں جیسے مسلم لیگ، ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس اور فرقہ واریت (فرقہ پرستی) میں تعین رکھنے والی دوسری قوتوں نے بھی کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ یہ دعوے کرنے لگے کہ برصغیر ہند میں جو اصلاحات لائی جارہی ہیں مساوات کی باتیں ہورہی ہیں وہ حقیقت میں مغربی تہذیب ہے لہٰذا ان طاقتوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور ان سماجی اصلاحات پر مغربی ہونے کا لیبل چسپاں کردیا۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ جو سماجی طاقتیں جن کی جڑیں جاگیردارانہ نظام اقتدار کے ڈھانچہ میں پیوست تھیں وہ مخالف مغرب بیانیہ میں پھنس کر رہ گئیں اور ساتھ ہی انہوں نے نوآبادیاتی حکمرانوں کے ساتھ سازباز بھی کرلیا۔ اس وقت کی اہم بات یہ رہی کہ قومی تحریک تہذیب کو ایک نئی شکل دے رہی تھی اور پوری طاقت کے ساتھ نوآبادیاتی حکمرانوں کی مخالفت پر اتر آئی تھیں۔ اس ضمن میں کوئی بھی بطور مثال اخوان المسلمین کو یادکرسکتا ہے (مغربی ایشیا میں) اخوان المسلمین بھی جمہوری ثقافت و اقدار کو بھی مغرب سے درآمد کردہ شئے قرار دیتی ہے (اخوان پر اکثر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ دین اسلام کے نام پر آمرانہ اصولوں اور سماجی عدم مساوات کو مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے)۔ ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ہندو دائیں بازو مساوات کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کرنا چاہتا ہیکہ یہ دراصل مغرب سے درآمد کردہ ہے۔ اسی طرح وہ دستورہند کے اقدار کی مخالفت کو بھی نوآبادیاتی تہذیب و ثقافت کی مخالفت کی آر میں چھپا دیتا ہے اور ہندو دائیں بازو کی یہ طاقتیں اس مخالفت کی یہ کہتے ہوئے مدافعت کرتی ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں جن اقدار کی تائید و حمایت کررہے ہیں، وہی ہندوستانی تہذیب ہے۔ بہرحال جسے بعض اوقات نوآبادیاتی ثقافت کی مخالفت کہا جاتا ہے وہ ایسی ثقافت ہے جو اخوت و بھائی چارہ اور انصاف کی مخالفت پر مبنی ہے۔ ذات پات اور جنس سے قطع نظر سب کیلئے انصاف ابھرتی ہوئی ہندوستانی جمہوریت کا مقصد رہا ہے۔ اس سے تکثیریت اور تنوع کو جگہ ملتی ہے۔ اگر ہم مابعد نوآبادیاتی دور ریاستوں کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہیکہ کچھ دہے قبل تک بھی ہندوستان کا سیاسی سفر بڑا اچھا رہا۔ ہم اس سفر کو بہترین سفر کہہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک تسلسل اور تبدیلی تھی۔ یہ گاندھی، پنڈت نہرو، سبھاش چندر بوس اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسی شخصیتوں کی طرز زندگی میں جھلکتی ہے۔ یہاں چند ایک شخصیتوں کے حوالے دینے کا مقصد ایک ایسی کوشش تھی جو ثقافتی اقدار سے ہم آہنگ ہو۔ اب ہم آپ کو حالیہ عرصہ کے دوران مندر سے متعلق واقعات کی طرف لئے چلتے ہیں۔ اس پر ایک شور بپا کردیا گیا ہے۔ یہ کہا جارہا ہیکہ مندر کا افتتاح، تہذیب کو نوآبادیاتی اصولوں سے آزاد کرنے کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ تاثر بھی دیا جارہا ہیکہ ابوظہبی میں وزیراعظم نریندر مودی کے ہاتھوں جس مندر کا افتتاح عمل میں آیا مغربی ایشیاء کے مسلم ملکوں میں تعمیر ہوئی پہلی مندر ہیں حالانکہ یہ پوری طرح غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہیکہ ابوظہبی میں مودی نے جس مندر کا افتتاح کیا وہ عرب ملکوں میں پہلی مندر نہیں ہے بلکہ متحدہ عرب امارات، مسقط، بحرین اور عمان میں بے شمار منادر پہلے ہی سے موجود ہیں۔ ویسے بھی عالمی سطح پر لوگوں کی نقل مکانی ایک عام رجحان ہے۔ اس طرح معاشی حالت بھی اس کی ایک عام وجہ ہے۔ ایسی صورتحال میں جب ہندوستانی کسی دوسرے ملک میں نقل مکانی کریں گے اور وہاں معاشی سرگرمیاں انجام دیں گے تو علاقہ میں پوجا کیلئے اپنی عبادتگاہوں، مندروں کی ضرورت بھی محسوس کریں گے۔ ابوظہبی میں بھی ایسا ہی ہوا۔ خود ہمارے پڑوسی مسلم ملکوں میں بے شمار منادر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش میں ہندوؤں کی مشہور مندر دھاکیشوری مندر ہے۔ پاکستان میں بھی کئی مقامات پر منادر ہیں۔ بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی نے جب پاکستان کا دورہ کیا تب انہوں نے تیزئین نو کی گئی کٹس راج مندر کا افتتاح انجام دیا تھا۔ ہندوستان میں ہو یا ابوظہبی میں ایک ہندو مندر کو یقینی بنانے کے نام پر مودی کی تعریف و ستائش کرنا اور انہیں اس کا کریڈٹ دینا غیرضروری ہے اور یہ بھی کہنا کہ ہندوستان اور ابوظہبی میں مندروں کا افتتاح کرتے ہوئے مودی نے ہندوستان اور علاقہ کو نوآبادیاتی اثر سے نکال دیا ہے بالکل غلط ہے۔ ہندوستان میں نوآبادیاتی اثر تو تحریک آزادی کے دوران ہی ختم ہوچکا آزادی کے بعد نہرو نے سائنس شعبہ میں ایک انقلاب برپا کردیا اور امبیڈکر نے بہترین انداز میں دستور کا مسودہ تیار کرکے ہم سب پر احسان کیا۔