موجودہ پرآشوب دور میں اِزدواجی ناانصافیاں عام

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ

موجودہ پرآشوب دور میں انسان صرف اپنے بارے میں ہی سوچ رہا ہے اور اہل عیال اور خاندان کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی زندگی کو پرآسائش بنانے میں مصروف ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر افراد جو بیرونی ملک جاکر اپنے وطن کے مقابلے میں کثیر دولت کماتے ہیں، ایسے لوگ بیرونی ملک جاکر بلاوجہ کی شادیاں کرتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے پہلی بیوی کو شدید تکلیف پہونچتی ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ ایسے لوگ نہ صرف اپنی اولاد بالخصوص لڑکیوں کو نظرانداز کردیتے ہیں اور دوسری بیوی کے ساتھ مگن ہوکر عیش کی زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے ہی کئی کیس سامنے آئے ہیں جن میں بعض شوہر کی لاپرواہی کی وجہ سے خواتین بالخصوص کیسیس لڑکیاں بدترین حالات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ایسے حالات میں جو عام طور پر وسائل سے عاری ہوتی ہے۔ اس پر لڑکیوں کی شادی کی ذمہ داری چھوڑ کر شوہر موصوف دوسری بیوی کے ساتھ پر آسائش زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں اپنی پہلی بیوی اور لڑکیوں اور اولاد کا کوئی احساس تک نہیں ہوتا اور بعض لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی کی ذمہ داری سے انجان ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے کئی لڑکیاں دلبرداشتہ ہوکر خودکشی جیسے اقدام یا پھر پولیس اسٹیشن میں اپنے باپ کے خلاف شکایت درج کرانے پر مجبور ہورہی ہیں۔ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت کے بارے میں مصر کی شہر آفاق دینی درس گاہ کے مفتی نے اس سلسلے میں یعنی چار شادیوں کی اجازت کے بارے میں حقیقی اسلامی تناظر کے ساتھ اپنا فتوی جاری کرتے ہوئے بتایا کہ کس صورت میں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت ہے۔ اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا شادیوں کی اجازت میں رواداری کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے اور پہلی بیوی کو نظرانداز کردیا جائے۔ اسلام کا تقاضہ ہے کہ اگر ایک سے زائد بیویاں ہو تو اس سے انتہائی مساوات اور انصاف کا سلوک کیا جائے یعنی ایک معمولی مثال ہے۔ اگر آپ پہلی بیوی کو ایکپن یا پینسل لاکر دیتے ہیں تو ویسا ہی پن یا پینسل دوسری بیوی کو لازمی قرار پاتا ہے۔ اسلام میں اتنی باریکی سے ازدواجی انصاف مساوات کی تعلیم دی گئی ہے کہ اس میں استعمال کی گنجائش نہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عام طور پر بعض لوگ اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یکے بعد دیگرے شادیاں کرتے ہیں اور اپنی ناانصافی کیلئے ناقص اور ناقابل توجہ طفلانہ جواز پیش کرتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک سے زائد شادیوں کے بعد بعض شوہر کا کسی ایک بیوی کی جانب زیادہ جھکاؤ ہوتا ہے اور شوہر اس جھکاؤ کی وجہ سے اپنی پہلی بیوی سے انصاف نہیں کرپاتا ہے جو اسلامی نقطہ نظر سے قابل گرفت عمل ہے۔ اس سلسلے میں اسلامی درس گاہ کے مفتی اعظم کا جاری فتوی ملاحظہ کیا جائے اور رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کی جائے ۔ فتویٰ کی نقل حسب ذیل ہے:
مصر کی سب سے بڑی دینی درس گاہ جامعہ الازہر کے سربراہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے باعث مذہبی اور سماجی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ جامعہ الازہر کے سربراہ الشیخ احمدالطیب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایک شخص کا زیادہ شادیاں کرنا عورت پر ظلم کے مترادف ہے ۔ مصر کے ایک ہفتہ وار پروگرام میں بات کرتے ہوئے شیخ الازہر نے کہا کہ قرآن پاک کا حکم ہے یعنی اگر تمہیں ڈر ہو کر تم بیویوں میں انصاف نہیں کرسکوگے تو ایک بیوی کافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کثرت ازدواج عورتوں اور اولاد دونوں پر ظلم ہے۔ ڈاکٹر الطیب نے استفسار کیا کہ کیا مسلمان بیوی پر ایک اور شادی کرنے کیلئے آزاد ہے؟ یا یہ آزادی سخت شرائط میں مقید ہے؟ کثرت ازدواج، محدود حق ہے۔ ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کیلئے دونوں میں انصاف بنیادی شرط ہے۔ مذکورہ بالا فتویٰ سے روگردانی پر خلاف ورزی کرنے پر حشر کے دن خالق کائنات کے سامنے جوابدہ ہوں گے جبکہ دنیا میں عذر پیش کرتے ہوئے بچا جاسکتا ہے لیکن آخرت میں حیلہ بازی کچھ کام نہیں آسکے گی۔
مزید تفصیلات کیلئے فون نمبر 9959672740 پر ربط کرسکتے ہیں۔