موجودہ ہنگامی حالات میں عوام کیلئےحکمرانوں کا بے حس رویہ

   

محمد اسد علی ،ایڈوکیٹ

موجودہ پرآشوب دور میں ہندوستان کا ہر شہری بالخصوص مسلمان انتہائی پرآشوب دور سے گذر رہے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے لوگ انتہائی پریشان ہیں حتی کہ ماضی میں کہا جاتا تھا کہ غریبوں کی غذا دال روٹی ہے لیکن موجودہ دور میں دال روٹی بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ محلات میں بیٹھ کر صرف تصویرکشی اور پبلیسٹی کرنا چاہتے ہیں۔ جمہوری ملک میں حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے سے پہلے عوام کے مشکلات اور ضروریات کا اندازہ کرتے ہوئے انہیں دور کرے لیکن اس دور کے بعض حکمران جو جمہوریت کی رَٹ لگاتے نہیں تھکتے۔ ان کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ ہندوستان کی آزادی سے قبل ریاست حیدرآباد پر آپ نظر ڈالیں تو محسوس کریں گے کہ جمہوریت سے کہیں بہتر شاہی دور تھا جس میں عوام کو پیٹ بھر کھانا اور سکون کی نیند حاصل ہوتی تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں ابراہیم لنکن کے اس قول کو نظرانداز کردیا گیا ہے اور ہمارے بعض نام نہاد حکمران صرف اپنی اور اپنے بچوں کی فکر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے دوست احباب اور چمچوں سے زیادہ دلچسپی رہتی ہے اور عوام کے کاموں کے بجائے بعض حکمران ان لوگوں کے کام پوری طرح انجام دیتے ہیں۔ اس طرح سے وہ اقتدار پر فائز رہنے کا حربے جانتے ہیں۔ حالیہ عرصہ کے دوران برطانیہ میں مہنگائی بڑھ جانے کی وجہ سے وہاںکے وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمراں اس بات کو رتی برابر بھی محسوس نہیں کرتے اور اپنی پر تعیش زندگی میں مگن ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ جمہوریت میں عوام کن حالات میں زندگی گذار رہے ہیں۔ غریبوں کے لئے ایک وقت کا کھانا اور آرام کی نیند فراہم نہیں اور فٹ پاتھ پر بارش اور شدید دھوپ میں بے حساب بے گھر لوگوں کو دیکھا جاسکتا ہے جو لوگوں کے دیئے ہوئے کھانے پر زندگی گذارتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پولیس اور بلدیہ وہاں بھی انہیں چین سے سونے نہیں دیتے اور کسی نہ کسی بہانے طاقت سے کام لیتے ہوئے انہیں وہاں سے ہٹایا جاتا ہے۔ بعض حکمراں خود ترقی کی نمائش چاہتے ہیں۔ جبکہ عوام بھیانک مہنگائی سے چلا رہے ہیں، لیکن حکمرانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں۔ دال، ترکاری دونوں بھی عام آدمی کی رسائی سے باہر ہوگئے ہیں۔ ہر طرف مہنگائی کا شور ہے اور جبکہ پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ سے ٹرانسپورٹ مہنگا ہوگیا ہے اور اس کے نتیجے میں اشیاء کی حمل و نقل کے اخراجات میں بھی بھاری اضافہ ہوا۔ ہر شخص اس صورتحال سے انتہائی پریشان اور حکمرانوں کا شاکی ہے لیکن انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت اس صورتحال پر ذراسی بھی توجہ نہیں کرتی ہے اور نہ کوئی قدم اٹھائی ہے۔ ہر شخص سکون کی نیند اور خوشحال زندگی گذارنا چاہتا ہے اور اگر اس کی زندگی میں خوشحالی نہ ہو تو اس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے اور اس کی زندگی سے چین و سکون ختم ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور میں لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان روزگار سے محروم ہیں اور ملازمت کے انتظار میں ان کی عمریں بھی متجاوز ہوتی جارہی ہے لیکن حکومت کو ان کا کوئی احساس نہیں ہے۔ ہندوستان میں ہر شہری بالخصوص مسلمان روزگار کیلئے بہت پریشان ہے اور دو وقت کی روٹی ان کو میسر نہیں ہورہی ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ موجودہ دور میں ناانصافی کا دور دورہ ہے اور عوام انصاف کیلئے عدالت سے رجوع ہوتے ہیں لیکن عدلیہ سے بھی انہیں انصاف حاصل نہیں ہوتا ہے، بالخصوص مسلمانوں کو ظلم اور ہراسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بے قصور مسلمانوں کو بلاوجہ کی سزا دی جاتی ہے۔
حال ہی میں ملک کے چیف جسٹس نے قانون کے سلسلے میں دیئے گئے بیان میں کہا کہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ قانون کو جبر کا آلہ نہیں بلکہ انصاف کا آلہ بنانا چاہئے۔ اگرچہ شہریوں کو عدلیہ سے اچھی توقعات ہوتی ہے لہذا عدالتوں کو چاہئے کہ وہ بلاتخصیص مذہب و ملت غیرجانبداری کے ساتھ انصاف فراہم کرے۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ قانون برطانوی دور کا چربہ ہے اور اس کے ذریعہ انصاف نہیں بلکہ جبر و تشدد کا استعمال ہوتا ہے۔ آپ کو دیکھنا چاہئے کہ قانون اور انصاف کے درمیان توازن کیسے پیدا ہوسکتا ہے تب آپ بطور جج یا منصف انصاف رساں کی حیثیت سے اپنے مشن کی تکمیل کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ جس دور میں رہتے ہیں، اس میں ہمیں کس قسم کے چیلنجس کا سامنا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ صرف جج کو نہیں بلکہ تمام قانون سازوں کو فیصلہ سازی میں شامل ہونا چاہئے۔ موجودہ دور پرآشوب دور ہے اور اس دور میں چاروں طرف ظلم کا دور دورہ ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسا قانون چل رہا ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ ہر شہری خاص طور پر مسلمان اپنے بچوں کو لازمی طور پر قانونی معلومات فراہم کرے تاکہ ناانصافی کی صورت میں اپنے بچاؤ کے ساتھ ساتھ اپنی کمیونٹی کا بھی تحفظ ہوسکے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کو پولیس یا کسی اور کی جانب سے ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو ایسے میں قانونی معلومات بڑا سہارا ہوسکتے ہیں اور مظلوم انصاف حاصل کرنے کیلئے عدالت اور دیگر ذرائع سے استفادہ کرسکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم خود اپنے بچوں کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق قانون کی تعلیم سے آراستہ کریں تاکہ فوری طور پر ظلم اور ناانصافی کا ازالہ ہوسکے اور عوام کو بھی چاہئے کہ وہ ہرگز ایسا کام نہ کرے جس سے انہیں قانون کے شکنجہ میں پھنسنا پڑے اور ماہر قانون داں کے مشورہ سے کام کریں چنانچہ جو جاگے وہ پائے گا، جو سوئے گا وہ کھوئے گا۔