مودی اور دیدی کی جنگ

   

پی چدمبرم

چار ریاستوں اور ایک مرکزی زیرانتظام علاقہ کے انتخابی نتائج جاری ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ ہر جماعت یہ دعوے کررہی ہے کہ انتخابی نتائج سے اس کا موقف ثابت ہوگیا ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی بھی کسی سے کم نہیں۔ اگرچہ اسے مغربی بنگال میں ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابی نتائج نے یہ ظاہر کردیا ہے کہ چار ریاستوں میں جن جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے، وہاں مستحکم حکومتیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کامیابی حاصل کرنے والی جماعتوں نے واضح اکثریت حاصل کی ہے جبکہ جن جماعتوں کو شکست ہوئی ہے، انہیں ریاستی اسمبلیوں میں ایک ذمہ دارانہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کا موقف حاصل ہوا ہے۔ ویسے بھی ان انتخابی نتائج کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کسی کو کامیابی ملی ہوا ہے اور کوئی فاتح ہے تو وہ عوام ہیں۔ جبکہ ترنمول کانگریس، لیفٹ فرنٹ اور ڈی ایم کے نے اس مرتبہ غیرمعمولی کامیابی حاصل کرکے سیاسی پنڈتوں کو سوچ و فکر میں مبتلا کردیا ہے۔ اگرچہ بی جے پی نے آسام میں جیت درج کی ہے، لیکن کیرالا اور ٹاملناڈو میں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کانگریس نے آسام اور کیرالا جیسی ریاستوں میں اہم اپوزیشن کا موقف حاصل کیا ہے لیکن بنگال میں اس کا ایک امیدوار بھی کامیاب نہ ہوسکا ۔
ان انتخابی جنگوں میں سب سے بڑی اور دلچسپ جنگ مودی اور دیدی کی جنگ رہی۔ مودی نے جس انداز میں ممتا بنرجی کو ’’دیدی اُو دیدی‘‘ کہہ کر بلایا، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ انتخابی جلسوں میں بنگال کی بیٹی کا مضحکہ اڑا رہے ہوں اور ان کا یہ انداز پوری طرح ایک وزیراعظم کے عہدہ پر فائز شخص کو زیب نہیں دیتا، تاہم مودی نے اس بارے میں وضاحت کی کہ وہ ممتا بنرجی کو طنز و طعنہ کا نشانہ نہیں بنا رہے تھے بلکہ لفظ دیدی ایک نہیں دو بار کہہ رہے تھے، لیکن مودی عوام کو اوہ… کا مطلب سمجھانے سے قاصر رہے۔ تاہم بی جے پی نے مودی کے برعکس انتہائی معتبر انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی اور اس مہم میں انہوں نے وہیل چیر کا غیرمعمولی طور پر استعمال کیا اور وہیل چیر پر بیٹھ کر ہی انتخابی مہم چلاتی رہیں۔ اس طرح وہیل چیر نے انتہائی گھٹیا اور سستی شہرت والی انتخابی مہم پر فتح حاصل کی۔ اسی طرح کیرالا کے نتائج بڑے دلچسپ اور حیرت انگیز رہے۔ وہاں یو ڈی ایف کو اُمید تھی کہ وہ اس مرتبہ اقتدار حاصل کرے گی اور ایل ڈی ایف کو اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے گا، لیکن ایل ڈی ایف نے صرف 0.8% زائد ووٹ حاصل کرتے ہوئے کیرالا میں اقتدار حاصل کرلیا۔
علاقائی پارٹیوں کا شاندار مظاہرہ
میرا یہ کہنا ہے کہ علاقائی جماعتیں عوام سے قریب ہوتی ہیں اور ان انتخابات میں دوبارہ یہ ثابت ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک علاقائی جماعت اس ریاست کے عوام کی زبان بڑی روانی سے بولتی ہے۔ بہتر انداز میں ان کی تہذیب کو سمجھتی ہے۔ ذات پات کے نقشے کو اچھی طرح جانتی ہے۔ معاشرے میں جو تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں، ان کا اندازہ فوری طور پر کرتے ہوئے انہیں پہچان لیتی ہیں اور حسب ضرورت ان تبدیلیوں کو اپناتی ہیں۔ اس کے برعکس قومی جماعتوں کا معاملہ کچھ اور ہوتا ہے۔ وہ بڑی جماعتیں ہوتی ہیں لیکن جہاں تک تبدیلیوں کا سوال ہے، یہ تبدیلیاں اسی سطح اور آہستہ آہستہ سے شروع ہوتی ہیں۔ دوسری جانب کانگریس نے بھی تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے، لیکن بعض وجوہات کے باعث خود کو موجودہ حالات کے مطابق ڈھالنے میں ناکام رہی۔ انڈین نیشنل کانگریس کو اس بارے میں سوچنے کی شدید ضرورت ہے۔ جہاں تک ملک کے سیاسی حالات کا سوال ہے، آئندہ تین برسوں میں یہ حالات بالکل مختلف ہوں گے۔ مثال کے طور پر سال 2022ء میں اترپردیش، گوا، منی پور، پنجاب، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور گجرات میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، جبکہ 2023ء میں میگھالیہ، ناگالینڈ، تریپورہ، کرناٹک، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، میزورم، راجستھان اور تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات ہوں گے ، اسی طرح 2024ء میں عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آئے گا اور ان انتخابات میں ہم مسٹر مودی کو ایک وزیراعظم سے کہیں زیادہ انتخابی مہم جو کی حیثیت سے دیکھیں گے۔
تباہی و موت
جہاں تک کورونا وائرس کی دو وباؤں کا سوال ہے، ان سے ہمارے ملک کی معیشت شدید متاثر ہوئی ہے اور اس بات کی بھی کوئی گیارنٹی نہیں کہ تیسری اور چوتھی لہر نہیں آئے گی۔ دَم توڑتی معیشت لوگوں کی ہلاکت کا باعث بن رہی ہے۔ تجارتی و کاروباری ادارے بن ہورہے ہیں۔ لوگ ملازمتوں سے محروم ہوتے جارہے ہیں (بیروزگاری کی شرح سردست 8% ہوگئی ہے) اور قیمتوں سے متعلق افراط زر بڑھتا جارہا ہے۔ سرمایہ کار ہندوستان سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔ وہ یہاں مشغول کردہ اپنا سرمایہ نکالنے لگے ہیں۔ اب حکومت کے سامنے سوائے قرض حاصل کرنے کے کوئی راہ باقی نہیں رہی۔ حکومت حالات کا رخ موڑنے کے قابل نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ان حالات سے سماج کے جس طبقہ نے سبق سیکھا ہے، وہ متوسط طبقہ ہے کیونکہ ان لوگوں نے اس بات میں یقین کرلیا تھا کہ ’’مودی ہے تو ممکن ہے‘‘ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی کالونیوں؍ محلہ جات کے دروازے بند کردیئے تھے۔ کورونا کو بھگانے کیلئے ان ہی لوگوں نے مودی کے کہنے پر تھالیاں بجائی تھیں اور شمعیں روشن کی تھیں، گھروں سے کام کیا تھا اور غریبوں خاص طور پر یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدوروں اور نقل مکانی کرنے والے ورکروں کی پریشانی پر اپنی آنکھیں بند کرلئے تھے۔ آج حکومت کی نااہلی کے باعث یہ متوسط طبقہ خود کو اسپتالوں کی راہداریوں میں آکسیجن سلنڈرس اور بستروں کی بھیگ مانگتے پایا ہے۔ ہر روز کثیر تعداد میں لوگ مر رہے ہیں، کسی کے خاندان کا کوئی رکن، کوئی رشتہ دار، کوئی دوست، کوئی ساتھی اپنی زندگی سے محروم ہورہا ہے۔ اس طرح ہم نے موت کو ماضی میں اتنے قریب سے نہیں دیکھا۔
تاریک مستقبل
اگر دیکھا جائے تو حکومت کورونا وائرس کی عالمی وباء اور معیشت دونوں پر کنٹرول پانے میں ناکام ہوگئی ہے۔ زندگیاں اور سامان زندگی بچائے جانے کی مستحق ہیں اور اس کے لئے ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے، لیکن فی الوقت رقم کی کمی ہے۔ حکومت کے پاس سوائے مالی خسارہ بڑھانے کے کوئی اور چارہ کار نہیں لیکن مسٹر مودی میں ایسا کرنے کی ہمت بھی نہیں۔ ان کی وزیر فینانس انہیں کوئی اچھا مشورہ دینے سے قاصر ہیں اور مسٹر مودی کے مشیران بھی بری طرح ناکام ہوچکے ہیں، نتیجہ میں آج ہندوستان ایک ایسے المیہ کا سامنا کررہا جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ اس المیہ نے لاکھوں خاندان کو تباہ و برباد کردیا۔
حکمراں اور اس کے آدمی بے لباس ہیں اور عالمی میڈیا نے اُن کی اس حالت پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ہندوستانی میڈیا ہلچل مچانا شروع کررہا ہے۔ جبکہ عوام ہر انتخابات میں اپنی برہمی و غصہ کا اظہار کررہے ہیں(مثال کے طور پر اترپردیش کے پنچایت انتخابات )