مودی حکومت کو ناقص معاشی پالیسیوں کی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑے گی

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر فینانس و داخلہ
مختلف ترنم میں نغمہ سرا مختلف آوازیں سننا یا ان خوبصورت آوازوں کا سماعت سے ٹکرانا بہت عمدہ ہوتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ڈاکٹر اروند سبرامنین مودی حکومت کے اعلیٰ معاشی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ (انہوں نے 16 اکتوبر 2004ء تا 20 جون 2018ء اعلیٰ اقتصادی مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ سردست واٹسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیرس براؤن یونیورسٹی کے سینئر فیلو ہے۔ وہ نہ صرف غیرمعمولی ماہر تعلیم ماہر اقتصادیات ہیں بلکہ ایک قابل مصنف بھی ہیں۔ گزشتہ سال ڈسمبر کے ماہ میں فارن افیرس میں ڈاکٹر اروند سبرامنین کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے صاف طور پر کہا کہ مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں میں کئی نقائص یا خامیاں ہیں۔ خاص طور پر آتما نربھر بھارت (خودمکتفی بھارت) کے تحت مودی حکومت کی پالیسیوں میں خامیاں ہیں۔
ڈاکٹر سبرامنین نے جن اُمور پر تشویش و پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سبسڈیز (رعایتی شرحیں) تحفظ تجارت ، علاقائی تجارتی معاہدات سے گریز سرفہرست ہیں جبکہ جن دیگر اُمور پر انہوں نے تشویش ظاہر کی ان میں مشتبہ ڈیٹا، مخالف وفاقیت، اکثریت کی حکمرانی میں یقین اور آزاد اداروں کو کمزور کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے اَنجانے میں سال 2018ء میں مودی حکومت کے اعلیٰ مشیر برائے اقتصادیات کا عہدہ چھوڑنے کی وجہ بھی بتادی۔ تقریباً چار سال تک اس عہدہ پر فائز رہنے کے بعد ڈاکٹر سبرامنیم نے وہ عہدہ چھوڑ دیا حالانکہ حکومت انہیں اس عہدہ پر برقرار رکھنے میں خوش تھی لیکن وہ حکومت سے خوش نہیں تھے اور شاید یہ محسوس کرلیا تھا کہ آنے والے دن بدترین ہوں گے۔ بے شک چیزیں بدترین ہوچکی تھیں۔ اوسط شرحیں جو یو پی اے حکومت میں 12% تھیں۔ اب اس میں اضافہ ہوکر 18% ہوگئیں۔ محفوظ فرائض
Anti Dumping Duties
(محفوظ شرحیں جو حکومت بیرونی درآمدات پر نافذ کرتی ہے اور حکومت یہ مانتی ہے کہ یہ شرحیں منصفانہ بازاری قدر سے کم قیمت کی ہوتی ہیں) اور
Non Tarriff Measures
(وہ تمام پالیسی اقدامات جو شرحوں اور شرحوں کی قدرہوتی ہیں جس کا بین الاقوامی تجارت پر زیادہ یا کم راست اثر ہوتا ہے۔ ہندوستان نے ہمہ رُخی تجارتی معاہدات سے بھی دُوری اختیار کی، یہ ایسے معاہدات تھے جس سے ملک کا معاشی فائدہ ضرور ہوا ہوتا۔ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف نریندر مودی سیاسی و دفاعی ہمہ جہتی معاہدات کرنے کیلئے بے چین ہیں۔ مثال کے طور پر وہ
COMCASA ، GSOMIA،QUAD اور دوسرا QUAD ، RELOS
معاہدات کرنے بے چین تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ معاہدات کے مخالف ہیں۔
کسی وقت ملک کے اقتصادی مشیر رہی ایک اور شخصیت بھی مودی کی معاشی پالیسیوں سے اتفاق نہیں کرتی اور اس سے مایوس ہے۔ وہ شخصیت ڈاکٹر اروند پنگاریہ کی ہے جو فی الوقت کولمبیا یونیورسٹی میں اِکنامک کے پروفیسر اور نیتی آیوگ کے نائب صدرنشین ہیں۔ ’’اِکنامک ٹائمس‘‘ میں حالیہ عرصہ کے دوران ان کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے حکومت کی تعریف و ستائش کے گیت گائے لیکن آخر میں حکومت کو اس کا حقیقی چہرہ دکھایا۔ انہوں نے کچھ یوں لکھا: حکومت کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ کھلی معاشی پالیسی اختیار کرے اور یہ معاشی پالیسی آزآدانہ تجارتی معاہدات کے ذریعہ اختیار کی جائے، ساتھ ہی جو اونچی شرحیں ہیں، انہیں واپس لیں۔ اس کے علاوہ اعلیٰ نظام تعلیم کا تعین کرے، اس کیلئے قدیم یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ایکٹ 1956ء کی جگہ کوئی اور جدید قانون لائے اور راست اور بالواسطہ محاصل کی بنیادوں کو وسیع تر کرے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ پبلک سیکٹر یونٹس کو خانگیانے کے عمل میں تیزی لانا بھی ضروری ہے اور پی ایس سیز شروع کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر دیکھا جائے تو مودی اور ان کی حکومت کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ ڈاکٹر اروند سبرامنین اور ڈاکٹر اروند بنگاریا چند برس قبل بھی حکومت کا ایک حصہ تھے۔ دونوں فراخدل، آزاد خیال، ماہرین اقتصادیات ہیں۔ دنیا کے باوقار اداروں میں پڑھاتے ہیں اور خانگی شعبہ کی زیرقیادت ماڈل کے حامی ہیں۔ ایک طرف وہ اقتصادی پالیسیوں کے نقائص و خامیوں کی نشاندہی میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ دوسری طرف وہ ان خامیوں کے تباہ کن اثرات کو پیش کرنے میں تذبذب کا شکار بھی ہیں۔
حکومت کی تباہ کن معاشی پالیسیوں کے جو تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ان میں ہندوستان میں عوام کی فی کس اوسط آمدنی میں گراوٹ بھی شامل ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں غریبوں کی بہت زیادہ تعداد ہے۔ حکومت کی تباہ کن معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں ناقص غذا، بچوں کے ٹھٹھرجانے (نمو رُک جانے) اور بچے ضائع ہوجانے کے واقعات میں اضافہ ہوگا۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بھوک کے عالمی اشاریہ میں (جملہ 116 ممالک میں) ہندوستان 94 ویں مقام سے 104 ویں مقام پر آگیا۔ یہ بھی مودی حکومت کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
مودی حکومت نے نوٹ بندی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کروڑوں کی تعداد میں ہندوستانی غربت کا شکار ہوئے۔ حکومت نے
MSMES
کی بہت کم حمایت کی۔ اس نے غریبوں کے اکاؤنٹس میں رقومات منتقل کرنے سے انکار کیا اور کورونا کی وباء کے دوران حالات پر قابو پانے کیلئے وہ اقدامات پیش کئے جو کرنے چاہئے تھے۔ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث ہی بیروزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا (شہری علاقوں میں 8.4% اور دیہی علاقوں میں 6.4%، یہ سی ایم آئی ای کے مطابق ہے)۔ دوسری طرف اعلیٰ افراط زر کی شرح (سی پی آئی 5.6% ) تک پہنچ گئی۔ حکومت نے
GST
بھی بہت برے انداز میں ڈیزائن کیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بالواسطہ محاصل میں اضافہ ہوگیا۔ پٹرول، ڈیزل اور ایل پی جی کی قیمتوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا۔ لائسنس پرمٹ دور کا احیاء ہو۔ مختلف شعبوں میں اجارہ داری کا رجحان بڑھ گیا۔ سرمایہ داروں کے موافق پالیسیاں بنائی گئیں۔ غرض حکومت کی معاشی پالیسیوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ مودی حکومت کو اب تک ان پالیسیوں کا سیاسی خمیازہ بھگتنا نہیں پڑا۔
ناانصافی میں اضافہ: ملک میں عدم مساوات اور ناانصافی کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ ورلڈ ان ایکلوالٹی رپورٹ 2022ء جو ایل چانسل ٹی پکٹی نے تحریر کی اس میں کہا گیا کہ ہندوستان کی بالغ آبادی کا 10% حصہ قومی آمدنی کا 57% حاصل کرتا ہے اور مابقی 50% حصہ صرف 13% لوگ حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ سرفہرست ایک فیصد قومی آمدنی کا 22% حصہ پر اپنا حق رکھتا ہے۔ گزشتہ اتوار کو اکسفام جاری کی گئی جس میں انکشاف کیا گیا کہ ملک کے ٹاپ 10%، 77% قومی آمدنی رکھتے ہیں۔ اس طرح ہندوستانی ارب پتیوں کی تعداد 102 سے برھ کر 142 ہوگئی جبکہ 84% گھرانوں کی آمدنی 2021ء میں خطرناک حد تک کم ہوگئی۔ ارب پتیوں کی دولت جو مارچ 2020ء میں 23.14 لاکھ کروڑ روپئے تھی۔ نومبر 2021ء میں برھ کر 53.16 لاکھ کروڑ روپئے ہوگئی۔ اس کے برعکس 4,60,00,000 ہندوستانی شدید غربت کا شکار ہوئے۔ اب چند دنوں میں ہی بجٹ (2022-23) پیش کیا جانے والا ہے۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ موٹی چمڑی والی ہے، اسے بدلنے کی ضرورت نہیں ہے تو یہ ایک المیہ ہوگا، اسے سیاسی قیمت تو ادا کرنی ہی ہوگی۔