مودی حکومت کی ’حرکتوں‘ نے انڈیا کی ساکھ بگاڑ دی

   

ششی تھرور
لوک سبھا میں بجٹ سیشن کا عجلت میں اختتام کا مطلب ہوا کہ وزارت امور خارجہ (ایم ای اے) کیلئے مطالبات زر برائے 2020-21ء پر مباحث نہ ہوئے۔ لیکن اس طرح کی بحث کا پارلیمنٹ کو طویل عرصہ سے انتظار ہے: لوک سبھا نے اس وزارت کے پرفارمنس پر تب سے کوئی مباحث منعقد نہیں کئے جب سے نریندر مودی حکومت نے 2014ء میں اقتدار سنبھالا ہے۔ پارلیمانی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے سابق صدرنشین کی حیثیت سے میں نے ہمیشہ فخر سے ہمارے رواج کو پیش کیا ہے کہ سیاسی اختلافات جب کبھی ضرورت محسوس ہو، موقوف ہوجاتے ہیں… کوئی کانگریس خارجہ پالیسی یا بی جے پی خارجہ پالیسی نہیں ہوتی، صرف ہندوستانی خارجہ پالیسی کی بات ہوتی ہے۔
موجودہ مشکل حالات میں جیسا کہ دنیا الگ تھلگ رہنے، تحفظ پسندی اور کٹر قوم پرستی کے خول میں گھس رہی ہے، اور مزید پریشانی آب و ہوا میں تبدیلی، عالمی دہشت گردی اور اب COVID-19 عالمی وبا کی وجہ سے آن پڑی ہے، ہمیں مضبوط خارجہ پالیسی درکار ہے جو عالمی نظم کی حالت پر مؤثر طور پر جواب دینے کے قابل ہو۔ شاید پہلے سے کہیں زیادہ اب ہم تمام کیلئے یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ ہندوستان خود کو کس طرح پیش کرتا ہے اور تمام درپیش چیلنجوں کے بارے میں دنیا کے بقیہ حصے سے کس طرح کا ربط قائم کرتا ہے۔
وزارت اور وزیر خارجہ ایس جئے شنکر مبارکباد کے مستحق ہیں جس طرح انھوں نے کووڈ۔19 کے شدید متاثرہ خطوں جیسے چین، ایران اور اٹلی میں ہمارے پھنسے شہریوں تک رسائی حاصل کی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہماری قوم دنیا بھر میں ہمارے سفارتی حکام کی بھی شکرگزار ہے، جنھوں نے یقینی بنایا کہ مشکل میں پھنسے ہندوستانیوں کی اچھی طرح مدد ہوجائے۔

یہ کہنے کے بعد مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کے بقیہ حصے کو دیکھیں تو اسے غیرمتاثرکن اور بے کیف کہنا پڑے گا۔ اگرچہ خود وزیراعظم مودی بیرون ملک حرکیاتی ’سیلزمین‘ رہے ہیں، لیکن اُن کی حکومت نے دیسی طور پر کمتر کارکردگی پیش کی ہے، جس نے سوال اٹھایا کہ کتنا عرصہ کوئی ’سیلزمین‘ محض اپنی باتوں اور ہوشیاری سے تیار کردہ بین الاقوامی چشموں سے متاثر کرسکتا ہے جبکہ اُس کے پاس فروخت والا پیاکیج ہی خالی ہو؟ ہندوستان کے اپنے جنوبی ایشیائی پڑوسیوں بالخصوص پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں ناکامیوں اور جھٹکوں کے تعلق سے کہنے کیلئے بہت کچھ ہے، چین کے ساتھ ہماری کشیدگیاں مسلسل جاری ہیں، انڈیا۔ امریکہ رشتے میں لڑکھڑاتاپن ہے حالانکہ دو امریکی صدور کے ساتھ مودی کی ’دوستی‘ کی زبردست تشہیر ہوتی رہی ہے، روس کے ساتھ روابط میں جھٹکے لگے ہیں، اور جاپان کے ساتھ معاملہ کبھی خوشگوار تو کبھی تلخی بھرا رہتا ہے۔ لیکن اگر کوئی واحد مسئلہ چننا ہو جو ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں موجودہ بحران کی تشریح کرتا ہے، تو وہ بھروسہ و اعتبار کا عظیم تر بحران ہے۔ اس نے ہماری خارجہ پالیسی کو دفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے کیونکہ اسے مودی حکومت کا دیسی برتاؤ بیرونی دوستوں اور نقادوں کو یکساں سمجھانے میں دقت پیش آرہی ہے۔
جیسا کہ میں نے اکثر استدلال پیش کیا ہے کہ انڈیا کو اپنے عالمی برتاؤ میں اپنی سخت طاقت اور اپنی نرم طاقت کے درمیان توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ آخرالذکر ہمارا سب سے بڑا اثاثہ رہا ہے۔ آخر کو زیادہ بڑی فوج یا معیشت کا حامل ملک عالمی قبولیت حاصل نہیں کرتا ہے، بلکہ وہ ملک جو بہتر بات بتائے۔ اور افسوس کہ ہندوستان کی بات دنیا کیلئے کم کشش والی بن گئی ہے۔ جب ہندوستان نے 1991ء میں دور رَس معاشی اصلاحات شروع کئے تھے، دنیا میں ہمارا قد بتدریج بڑھتا رہا۔ دور اندیش قائدین کی مرہون منت ہمیں پھلتی پھولتی جمہوریت اور دنیا کیلئے ایک مثال کے طور پر تسلیم کیا گیا کہ آزاد اور کھلے سماج میں تنوع کو کس طرح سنبھالے رکھا جائے۔

آج مودی۔ امیت شاہ حکومت نے اُس دور کو بے ڈگر کردیا ہے۔ کوئی بھی معتبر بیرونی اشاعت (نظریاتی جھکاؤ دایاں بازو کا ہو یا بایاں بازو) پر ملاحظہ کیجئے، آپ کو ہندوستان کی معاشی اور سماجی تبدیلیوں کو نشانہ بنانے والے سخت مضامین میں موجودہ حکومت کی حرکتوں پر تنقیدیں اور مذمت ضرور ملیں گے۔ خاص طور پر جموں و کشمیر میں ہمارے اقدامات پر توجہ دی گئی ہے۔ اس خطہ کو پابندیوں کے تحت ڈال دینے، ریاست کو تقسیم کرنے، انٹرنٹ اور مواصلات معطل کرنے، اصل دھارے کے سیاسی قائدین کو محروس رکھنے اور صحافت کی زباں بندی کرنے نئی دہلی حکومت کے فیصلوں پر وسیع تر تنقیدیں ہوئی ہیں۔
حالیہ عرصہ میں مودی حکومت نے پہلے فرقہ پرستانہ نوعیت کا شہریت (ترمیمی) قانون منظور کرایا (اور ملک گیر نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس یا این آر سی کی منصوبہ بندی جو مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرسکتی ہے) اور پھر ہندوستان بھر میں پھیل چکے احتجاجوں کا پُرامن و تعمیری حل ڈھونڈنے میں اس کی عدم آمادگی نے چوکس عالمی برادری کی پھٹکار کو دعوت دی ہے۔ عالمی تشویش اس مرحلہ پر سخت ہوگیا جب ہمارے ملک کے دارالحکومت دہلی میں تشدد پھوٹ پڑا، 53 شہریوں کی جانیں تلف ہوئیں اور قانون نافذ کرنے والی ہماری ایجنسیاں محض تماشائی بن کر رہ گئیں۔

اس طرح کے واقعات پر مغربی میڈیا نے نہ صرف تنقید کی ہے، بلکہ ان سے پڑوسی مسلم ملکوں بنگلہ دیش اور افغانستان میں ہمارے دوستوں کو بھی الجھن ہوگئی، بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوگیا، یو ایس کانگریس کے بااثر ارکان کو عداوت ہوگئی، اور کئی عالمی قائدین حکومت سے متنفر ہوگئے۔ کئی مسلم اقوام نے کھلے طور پر تنقید کی، ہمارے سفیروں کو طلب کرتے ہوئے وضاحتیں پوچھیں، اور جن کا ہندوستان سے اچھا رشتہ قائم ہے وہ نجی طور پر ایسا کہنے پر مجبور ہوگئے، ’’برائے مہربانی، ہم پر اتنا زیادہ دباؤ نہ ڈالیں کہ آپ کے دوست برقرار رہیں!‘‘ زائد از 40 سال میں پہلی مرتبہ کشمیر پر اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں بحث ہوئی۔ دہلی اور واشنگٹن میں حکومت سے قطع نظر مضبوط باہمی تعلقات پر دو طرفہ اتفاق رائے جو امریکہ میں 25 سال سے قائم تھا، اب ٹوٹ چکا ہے۔
برتاؤ میں تبدیلی وقت کی ضرورت

دنیا بجاطور پر ایسے انڈیا پر متفکر ہے جو مسلسل متعصب اور عدم روادار بنتا جارہا ہے، جو اپنے عوام کے درمیان دانستہ طور پر فرقہ وارانہ خلیج پیدا کررہا ہے، اور جس پر عدم روادار اکثریت پسندی کا غلبہ ہورہا ہے، جو بیرونی دنیا کو بالکلیہ پسند نہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمارے سفارت کار ہندوستان اور دنیا کیلئے اہم مسائل کو پیش کرنے کے بجائے اپنا تمام وقت الزامات کی تردید، بی جے پی قائدین کے تذلیل آمیز بیانات اور حرکتوں کی وضاحت، اور ہماری دیسی پالیسیوں کی شاکی بیرونی حکومتوں کے سامنے دفاعی انداز میں تشریح کرنے میں صَرف کررہے ہیں۔

جیسا کہ رعب دار منموہن سنگھ نے حال ہی میں ہندوستانی حالات کے تیکھے خلاصہ میں نشاندہی کی ہے، ’’انڈیا کو سماجی عدم ہم آہنگی، معاشی سست روی اور عالمی وبا کی تگڑی سے ناگزیر خطرے کا سامنا ہے… مجھے گہری تشویش ہے کہ ان جوکھموں کا طاقتور امتزاج نہ صرف ہندوستان کی روح کو نقصان پہنچاسکتا ہے بلکہ دنیا میں معاشی اور جمہوری طاقت کے طور پر ہماری عالمی وقعت کو بھی معدوم کرسکتا ہے۔‘‘ جب منموہن سنگھ کے معیار و بصیرت کا کوئی شخص اس طرح کے الفاظ استعمال کرتا ہے تو یقینا ان پر کان دھرنا برسراقتدار قائدین کے مفاد میں ہے۔
میرا ماننا ہے کہ ایک قوم کی حیثیت سے انڈیا طاقت و مضبوطی، قیادت اور ایک نمونہ پیش کرسکتا ہے جس کی عالمی نظام تقلید کرے؛ لیکن صرف ایسی صورت میں جب وہ دیسی طور پر مختلف نظریات اور مفادات کی دعوے داری پر بدستور کھلا ذہن رکھے، بیرونی دنیا کی طاقت یا وہاں کے پراڈکٹس سے بے خوف رہے، جمہوری تکثیریت سے جڑا رہے جو ہمارے ملک کی عظیم ترین طاقت ہے، نیز آزادی کے تئیں پابند عہد رہے اور اپنے عوام کی اختراعی توانائیوں کو تسلیم کرے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ ہماری حکومت کی اپنی حرکتوں نے اُس ریکارڈ اور اُن اقدار کو ماند کردیا جن کی اساس پر ہمیں ابھی تک عالمی سطح پر تعریف و توصیف حاصل ہوتی رہی ہے۔ اگر ہمیں اسے واپس حاصل کرنا ہو تو مودی حکومت کو دیس میں اپنا رویہ بدلنا ہوگا جس کے بعد ہی وہ بیرون ملک تعریف و ستائش حاصل کرنے کی امید کرسکتی ہے۔
shashi.tharoor@nic.in