مودی حکومت کی دروغ گوئیاورتمام سیاہ یا سفید

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

مرکزی حکومت کی معاشی پالیسیوں کو لیکر وزیر فینانس بلند بانگ دعوے کررہی ہیں اور ان دعوؤں کی تائید و حمایت میں حکمراں بی جے پی کے قائدین اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں وہ بڑا عجیب لگتا ہے ۔ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو وزیر فینانس نے مودی حکومت کا جو آخری بجٹ ( وہ بھی عبوری بجٹ کی شکل میں پیش کیا ہے ) میں بلند بانگ دعوؤں اور دروغ گوئی کے سوا کچھ نہیں ، اسے باالفاظ دیگر ہم اعداد کا اُلٹ پھیر ہی کہہ سکتے ہیں ۔ ویسے بھی پاگل پن میں بھی ایک طریقہ ہوتا ہے اس کی ایک حد ہوتی ہے ۔ بہرحال ہم بات کررہے تھے بی جے پی حکومت کے پیش کردہ بجٹ کی ۔ حکومت نے ایک ایسے وقت اپنی معیاد کا آخری بجٹ ( عبوری شکل ) میں پیش کیا جبکہ جلد ہی عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آنے والا ہے ۔ وزیرفینانس کی تقریر حکومت کے ریکارڈ پر نظر ڈالنے اور مستقبل کیلئے ایک راستہ طئے کرنے کا ایک اہم موقع تھا لیکن کانگریس کے پیش کردہ بلیک پیپر اور حکومت کے پیش کردہ وائیٹ پیپر نے مزہ خراب کردیا ۔
کانگریس نے حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں و پروگرامس کے ساتھ ساتھ اقتصادی محاذ پر اس کی ناکامیوں کو اُجاگر کرنے بلیک پیپر جاری کیا اور حکومت نے اپنی معاشی کامیابیوں پر روشنی ڈالنے اور سابق یو پی اے کی ناقص معاشی پالیسیوں کو بے نقاب کرنے کیلئے وائٹ پیپر جاری کیا ، یہ دونوں پیپرس 8 فبروری کو جاری کئے گئے ۔ ہر کسی کو یہی اُمید یا توقع رہی ہوگی کہ حکومت جو وائٹ پیپر پیش کرنے جارہی ہے وہ بی جے پی کے دس سالہ دور اقتدار کے دوران انجام دیئے معاشی کارناموں پر مبنی ہوگا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی حکومت نے وہ وائٹ پیپر 2004 ء تا 2014ء یو پی اے کی معیاد سے متعلق جاری کیا جس کا مقصد کانگریس کے اس دس سالہ دور اقتدار یا میعاد کو ایک ہی رنگ میں رنگنا تھا اور وہ رنگ سیاہ تھا لیکن اس معاملہ میں حکومت کے ارادے اُس وقت ناکام ہوگئے جب اس کا وائیٹ پیپر یوپی اے دور حکومت کے معاشی کارناموں پر بحث و مباحث کا باعث بن گیا اور ملک کو دوبارہ یہ جاننے کا موقع ملا کہ یو پی اے کے دس سالہ دورِ حکومت میں ہمارے ملک نے کس قدر معاشی محاذ پر کارہائے نمایاں انجام دیئے ۔ عوام کو وائٹ اور بلیک پیپر سے یو پی اے اور این ڈی اے حکومتوں کی معاشی کامیابیوں و ناکامیوں کا موازنہ کرنے کا بھی موقع ملا اور اس موازنہ اور تقابل میں کئی ایک لحاظ سے یو پی اے کا مظاہرہ این ڈی اے سے کافی بہتر رہا ۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ یہ پاگل پن ہے ( سابق یو پی اے کی معاشی کارکردگی پر حکومت کا وائٹ پیپر پیش کرنا ) لیکن حکومت نے اس کے حامیوں نے خود کو بہت ہشیار اور مقابل کو کمزور یا بے وقوف سمجھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کتنے بھی ہشیار یا چالاک کیوں نہ ہوں اپنے مد مقابل کو کسی بھی طرح کمتر اور کمزور نہیں سمجھ سکتے ۔
سب سے بڑا فرق : ایک چیز جو سب کی نظروں اور توجہہ میں آئی وہ Constant Prices پر قومی مجموعی پیداوار کی اوسط شرح نمو تھی ۔ اس معاملہ میں یو پی اے کا مظاہرہ شاندار رہا۔ Old Base Year (2004-05) کے مطابق یو پی اے کے دس سالہ دورِ اقتدار میں قومی مجموعی پیداوار کی اوسط شرح نمو 7.5 فیصد رہی ۔ سال 2015 ء میں بی جے پی حکومت نے Base year کو تبدیل کرکے 2011-12 رکھا تا کہ یو پی اے کے نمبر دھندلا کردیا جائے ، اس کے باوجود اوسط شرح نمو 6.7 فیصد تھا ۔ اس کے برعکس این ڈی اے حکومت میں دس سال کے دوران اوسط شرح نمو 5.9 فیصد ریکارڈ کی گئی ، فرق زیادہ اہم نہیں ہے ۔ دونوں میں 1.6 فیصد کا فرق پایا گیا (یا 0.8 فیصد ) ۔ دس برسوں تک سالانہ جی ڈی پی کے حجم میں بہت بڑا فرق پایا گیا ۔ اس طرح فی کس اوسط آمدنی اشیاء اور خدات کے حجم ، برآمدات کے حجم ؍ قدر ، مالی اور روینیو (آمدنی ) کے خسارہ اور کئی ایک معاملات میں بہت نمایاں فرق پایا گیا ۔ اس ضمن میں ہم آپ کو پوری وضاحت کے ساتھ سمجھانے اور بتانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یو پی اے کے دورِ حکومت میں قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو پرانی سیریز میں 7.46 فیصد اور نئی سیریز میں 6.7 فیصد رہی ۔ اس کے برعکس این ڈی اے دورِ حکومت میں قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو 5.9 فیصد رہی ۔اب بات کرتے ہیں Terminal Year میں مالی خسارہ کی ۔ یہ یو پی اے دورِ حکومت میں 4.5 فیصد رہا اور این ڈی اے دورِ حکومت میں 5.8 فیصد درج کیا گیا ، اسی طرح یو پی اے دورِ حکومت میں قومی قرض (ٹرمنل سال میں ) 58.6 لاکھ کروڑ روپئے تھے جبکہ این ؛ی اے دورِ اقتدار میں یہ بڑھ کر 173.3 لاکھ کروڑ روپئے ہوگیا ۔ قومی مجموعی پیداوار کو قرض کی جب ہم بات کرتے ہیں تو یو پی اے دور میں یہ 52 فیصد تھا، این ڈی اے دورِ حکومت میں 58 فیصد ریکارڈ کیا گیا ۔ گھر بار کی بچت ( جی ڈی پی کے فیصد میں ) کے معاملہ میں جب جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یو پی اے دورِ حکومت میں یہ 23 فیصد اور این ڈی اے کے دوراقتدار میں 19 فیصد رہی ۔
اب بات کرتے ہیں کھیتوں میں کام کرنے والوں کی اُجرتوں کا نمو کی اس معاملہ میں آپ کو بتادیں کہ یو پی اے 4.1 فیصد اور این ڈی اے کی حکومت میں 1.3 فیصد ریکارڈ کیا گیا ۔ اگر ہم پبلک سیکٹر یونٹس کے بنکوں کے این پی ایسٹسNon Performing Assets کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یو پی اے کی معیاد میں یہ 8 لاکھ کروڑ روپئے تھے ۔ این ڈی اے دورِ حکومت میں بڑھ کر 55.5 لاکھ کروڑ روپئے ہوگئے ۔ میں نے یو پی اے کے دورِ اقتدار (2013-14 تا 2004-05) اور این ڈی اے اقتدار (2022-23 تا 2014-15 ) کے اعداد و شمار پیش کئے ہیں اور ایک بات جہاں تک بنک قرضوں کے معاف کئے جانے کا سوال ہے یو پی اے حکومت میں 2.2 لاکھ کروڑ روپئے قرض معاف کیا گیا تھا جبکہ بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے کی حکومت میں 14.56 لاکھ کروڑ روپیوں کے قرض معاف کئے گئے ۔ اگر ہم یو پی اے اور این ڈی اے کی معیاد کے ختم تک جملہ مصارف کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے شعبہ صحت پر یو پی اے حکومت کے مصارف جملہ مصارف کا 1.7 فیصد رہے جبکہ این ڈی اے حکومت میں بھی یہ مصارف 1.7 فیصد درج کئے گئے ۔ تعلیم پر یو پی اے دورِ حکومت میں جملہ مصارف کا 4.6 فیصد حصہ خرچ کیا گیا جبکہ بی جے پی کے زیرقیادت این ڈی اے نے تعلیمی شعبہ پر جملہ مصارف کا صرف 2.9 فیصد حصہ خرچ کیا ۔ اس طرح کئی محاذ پر یو پی اے کے مقابل این ڈی اے کا مظاہرہ بدترین رہا ۔
میرے خیال میں جو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا ڈیٹا جس نے این ڈی اے حکومت کی ناقص اور غلط معاشی پالیسیوں اور معاشی اُمور سے نمٹنے میں اختیار کردہ Mismangement کو بے نقاب کرکے رکھ دیا وہ قومی قرض ہے ۔ لاکھوں کروڑوں گھرانوں کی بچت میں گراوٹ ہے ، اس کے علاوہ بنک قرضوں کی معافی میں زبردست اضافہ ہے ۔ ساتھ ہی شعبۂ صحت و شعبۂ تعلیم پر مصارف میں کمی اور مرکزی حکمومت کے ملازمین کی تعداد میں کمی بھی تشویش کا باعث ہے۔ یقینا بعض شعبوں میں این ڈی اے کا مظاہرہ بہتر بھی رہا ۔
سفید جھوٹ : بی جے پی کی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے جو وائٹ پیپر جاری کیا وہ بھی بہت سفید ( جھوٹ ) تھا جس میں یو پی اے حکومت کے بے شمار کارناموں پر سیاہ رنگ چڑھایا گیاجبکہ این ڈی اے حکومت کی بڑی بڑی ناکامیوں پر پردہ ڈالدیا ۔