مودی حکومت کی دوسری میعاد کے پہلے سال کی آج تکمیل

,

   

متنازعہ نظریاتی ایجنڈہ کو تیزی سے آگے بڑھانے کے اقدامات کے بعد کورونا وباء سے حکومت کیلئے نئے چیلنجس

نئی دہلی 29 مئی ( سیاست ڈاٹ کام )مودی حکومت نے اپنی دوسری معیاد کا ایک سال پورا کرلیا ہے اور اس نے ابتدائی مہینوں میں اپنے نظریاتی ایجنڈہ کو انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ تاہم کورونا وائرس کی وباء کے نتیجہ میں معیشت جس قدر تباہ ہوئی ہے اس نے مودی حکومت کیلئے ایک چیلنج پیدا کردیا ہے اور اس کی ساری توجہ اب معیشت پر مرکوز ہوگئی ہے ۔ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کا ایک سال کل ہفتہ 30 مئی کو پورا ہو رہا ہے ۔ بی جے پی کے خیال میں دوسری معیاد کا پہلا سال دیرینہ ہندوتوا مطالبہ کی تکمیل کیلئے یاد رکھا جائیگا کیونکہ اس نے لوک سبھا میں اپنی بھاری اکثریت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے نظریاتی متنازعہ ایجنڈہ کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس نے دستور ہند کے دفعہ 370 کو حذف کردیا جس سے جموں و کشمیر کو خصوصی موقف حاصل تھا ۔ اسی طرح رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کی ہے اور یہ دونوں مسائل بی جے پی کے انتخابی منشور کے دو اہم نظریاتی نکات سمجھے جاتے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ایک قرار داد منظور کرتے ہوئے جموںو کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کردیا گیا جبکہ سپریم کورٹ کی ایک دستوری بنچ کے فیصلے سے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے تین طلاق جیسے متنازعہ مسئلہ پر قانون سازی کی اور اس نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں متنازعہ شہریتی ترمیمی قانون بھی منظور کروالیا ۔ بی جے پی کے نائب صدر ونئے سہسرانوڈھے کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کی دوسری معیاد کا پہلا سال وعدوں کی تکمیل کا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے عزم ‘ حوصلے اور جذبہ کے ساتھ کام کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پہلی معیاد میںفلاحی اسکیمات کو نافذ کیا گیا تھا جس کے بہترین نتائج برآمد ہوئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ دستور کے دفعہ 370 کو حذف کرنا

اور پھر شہریت ترمیمی قانون کو منظور کرنا انتہائی فطری عمل تھا کیونکہ 2019 میں بی جے پی کو اس کیلئے زبردست عوامی تائید حاصل ہوئی تھی ۔ واضح رہے کہ پڑوسی تین ممالک کے غیر مسلموں کو ہندوستان کی شہریت دینے سے متعلق شہریت ترمیمی قانون کی منظوری کے بعد ملک بھر میں زبردست احتجاج ہوا تھا جس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ وضاحت کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا کہ ان کی حکومت نے این آر سی پر عمل آوری کے تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں اور سماجی تنظیموں کا کہنا تھا کہ این آر سی کو اگر سی اے اے سے مربوط کردیا جائے تو یہ مسلمانوں کے تعلق سے امتیازی ہوگا ۔ اب جبکہ کورونا نے ملک بھر میں زندگیوں کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے اور غریب عوام روزگار کے مقامات سے اپنے آبائی مقامات کو منتقل ہو رہے ہیں ایسے میں لاکھوں افراد کے روزگار متاثر ہوء یہیں اور معیشت کیلئے خطرناک چیلنجس ابھر کر سامنے آئے ہیں اور اب یہی وباء عوامی زندگی کا حصہ بن گئی ہے اس لئے اس سے حکومت کو زبردست چیلنجس کا سامنا ہے ۔ بی جے پی نائب صدر کا کہنا تھا کہ حکومت اور بی جے پی اس بحران سے پورے حوصلے کے ساتھ نمٹ رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس چیلنج کو بھی ایک موقع میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔