مودی ’’میک اِن انڈیا‘‘ نعرہ پر واپس

   

مہیر شرما
وزیراعظم نریندر مودی آج کل پھر سے ’’میک اِن انڈیا‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں طیارہ ساز فیکٹری کا انہوں نے افتتاح انجام دیا اور اس موقع پر وہ اس نعرہ پر واپس آگئے جو انہوں نے 2014ء میں اقتدار پر فائز ہونے کے چند ماہ بعد بلند کیا تھا۔ انہوں نے اس وقت ’’میک اِن انڈیا‘‘ کا نعرہ لگاکر ہندوستانی قوم کو متاثر کرنے کی کوشش کی تھی اور اپنی کوشش میں وہ کامیاب بھی رہے لیکن اس مرتبہ انہوں نے اپنے موقف میں کچھ تبدیلی لائی، پہلے وہ ہندوستان میں ہندوستانیوں کیلئے چیزیں بنانے کی بات کیا کرتے تھے۔ اب وہ ہندوستانی صنعت کاروں کو مشورہ دینے لگے ہیں کہ کچھ بنانا ہو تو دنیا کیلئے بناؤ، ویسے بھی ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ مودی نے مینوفیکچرنگ برآمدات بڑھانے سے متعلق ہندوستانی ضرورت کی سمت اشارہ کیا ہو۔ ایک بات ضرور ہے کہ ہندوستان نے اپنے سرمایہ کاروں کیلئے ملکی بازاروں کے حجم پر توجہ مرکوز کی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ طیارہ سازی کی جس فیکٹری کا مودی افتتاح انجام دے رہے تھے ، وہ ٹاٹا گروپ کے ساتھ مل کر ایربس ملٹری ٹرانسپورٹ طیارہ بنائے گی جبکہ ہندوستان نے 40 طیارے خریدنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ تاحال برآمدات کی کوئی معاملت کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔ ہماری مرکزی حکومت کو اس امر پر فخر ہے کہ طیاروں کیلئے سربراہی چین کا بیشتر حصہ ہندوستان میں ہی واقع ہوگا۔ (یہ ٹاٹا سنس لمیٹیڈ کے زیرغور ہے) اس کے صدرنشین نٹراجن چندر شیکھرن کا دعویٰ ہے کہ ان کی کمپنی ویلیواسٹریم کے ایک سرے پرالومینیم انگوٹ لے گی اور اسے ایربس میں تبدیل کرے گی۔ ان کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی فیصلہ ساز ہنوز جدید اور غیرمرکوز سپلائی چین کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو ٹاٹا۔ ایربس معاہدہ سے متعلق تنازعات اور بالخصوص مودی کی آبائی ریاست گجرات میں اس کا قیام یہ ظاہر کررہے ہیں۔ مینوفیکچرنگ کے شعبہ میں سپر پاور بننے کیلئے ہندوستان کے تازہ ترین منصوبہ کس قسم کی جدوجہد کرسکتے ہیں۔ ایک اور حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس حقیقی صنعتی پالیسی نہیں ہے، اس کی بجائے جو کچھ ہے، وہ پیداوار کیلئے تقریباً 2 کھرب روپئے مالیتی مختلف سرکاری اسکیمات ہیں جو پیداوار سے منسلک مراعات یا PLIS کیلئے ہیں۔ یہ خاص شعبے ہیں۔ بڑی سرمایہ کاری کیلئے موثر طریقہ سے سبسڈی یا خصوصی حل ہیں۔ دن میں 14 اسکیمات کی جو اہداف میں شامل کئے گئے، شعبہ ہیں، ان میں سے کچھ کی واضح اسٹراٹیجک قدر ہے جن میں سیمی کنڈکٹرس، سولار ماڈیولز، موبائل بیانڈ سیٹس اور بیٹریاں شامل ہیں۔ اس سے کثیر تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں حاصل ہوں گی۔ مثال کے طور پر پارجہ جات کا شعبہ اور دوسرے چند ایک شعبوں میں جن میں ہندوستان نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان شعبوں میں آٹو موبائیل کے پرزے وغیرہ ہیں۔ موجودہ ترجیحات کو دیکھتے ہوئے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ دوسرے کئی ایک شعبے بھی سبسڈی یا رعایتی قیمتوں کیلئے لابنگ کررہے ہیں۔ آپ اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر کوئی مینوفیکچرنگ ایک سابق ریاستی وزیر کا دعویٰ تھا کہ کمپنیوں نے مقامی حکام پر واضح کردیا تھا کہ وہ کیا پلانٹ قائم کریں۔ اس کا انحصار مودی حکومت پر تھا۔ مہاراشٹرا کیلئے ایک اور پریشانی کی بات یہ ہوئی کہ فاکسکان اور ویدانتا کا چپ فیبریکیشن پلانٹ اس کے حصہ میں آنے کی بجائے گجرات کے حق میں گیا۔ یہاں بھی سبسڈی نے کام کیا اور اس سے مرکز کی ترجیحات کا اندازہ بھی ہوا۔ مرکزی حکومت نے سیمی کنڈکٹر کی سبسڈی کیلئے 10 ارب ڈالرس مختص کئے ہیں۔ اگرچہ مودی حکومت تعاون و اشتراک پر مبنی مسابقتی وفاقیت کی بات کرتی ہے لیکن وہ جس ریاست کو چاہتی ہے ،بڑے پراجیکٹس دیتی ہے کیونکہ اس کی مرضی و منشاء کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ بہرحال فی الوقت حکومت کی سوچ اور اس کی پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔