مودی نے اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی

   

راہول اب اپوزیشن کے سب سے قدآور لیڈر

ظفر آغا

تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
حبیب جالب
جی ہاں، ہر تاناشاہ کو بقول حبیب جالب اپنے خدا ہونے کا گماں ہی نہیں بلکہ یقین ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس سے قبل جو تاناشاہ تخت نشیں تھا وہ بھی اپنے کو خدا سمجھتا تھا اور آخر وہ اقتدار سے باہر ہو گیا۔ جس طرح راہول گاندھی کی پارلیمانی رکنیت ختم کی گئی، اس سے یہ ظاہر ہے کہ ملک کے حکمراں خود کو خدا سمجھنے لگے ہیں، اور وہ جو چاہیں وہ کریں۔ آخر سوال یہ ہے کہ راہول گاندھی کا گناہ کیا تھا جس پر ان کو پارلیمنٹ سے باہر کرنے کی سزا دی گئی۔ کہنے کو راہول کے خلاف یہ الزام ہے کہ انھوں نے 2019 میں ایک ریلی کے دوران ’مودی سرنیم‘ کو لے کر قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ راہول نے اڈانی-مودی رشتوں پر حکومت سے جواب مانگنے کی جرآت کی۔ اور یہ رشتے اتنے نازک ہیں کہ حکومت اس سوال کا جواب دینے سے صرف کترا ہی نہیں رہی بلکہ گھبرا رہی ہے۔ اور اسی گھبراہٹ میں آخر یہ فیصلہ لیا گیا کہ راہول گاندھی کی پارلیمنٹ سے رکنیت ہی ختم کر دولیکن گھبراہٹ میں لیے جانے والے فیصلے عموماً غلط ہی نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس فیصلے سے حکمراں جماعت بی جے پی کو نقصان اور کانگریس و راہول گاندھی کو سیاسی فائدہ ہی ہونے والا ہے۔ راہول کی پارلیمانی رکنیت ختم ہونے سے کانگریس کو حسب ذیل فائدے ہونے ہی ہیں:
• جس غیر جمہوری انداز میں راہول گاندھی کی رکنیت ختم کی گئی، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ملک کی پارلیمنٹ ہی نہیں بلکہ ملک کا جمہوری نظام بھی خطرے میں ہے۔
• اس فیصلے نے ہندوستان کی تمام اپوزیشن پارٹیوں کو متحد کر دیا۔ شاید ہی کوئی اپوزیشن لیڈر ہو جس نے راہول کے حق میں بیان نہیں دیا۔
• راہول گاندھی راتوں رات متحدہ اپوزیشن کے لیڈر بن گئے۔
• اگلا لوک سبھا چناؤ اب راہول گاندھی کی قیادت میں لگ بھگ طے ہے۔
• راہول گاندھی اس وقت صرف متحدہ اپوزیشن کے سب سے قدآور لیڈر ہی نہیں بلکہ وہ اب بی جے پی مخالف ووٹر کے ہیرو بھی ہیں۔دراصل بی جے پی پچھلے تقریباً دس برسوں میں ان تمام باتوں کے خلاف اپنی انرجی جھونک رہی تھی۔ پچھلے آٹھ دس برسوں میں راہول گاندھی کی کردار کشی کے لیے بی جے پی اور سنگھ نے جو ’پپو‘ کیمپین چلایا تھا، وہ اب بے سود ہو چکا ہے۔ راہول اب اپوزیشن کی صف میں ایک سب سے بلند و بالا لیڈر بن گئے ہیں۔ یہ بھی اب تقریباً طے ہے کہ اگلا لوک سبھا چناؤ راہول بنام مودی کے ایشو پر ہو۔ ظاہر ہے کہ ان باتوں سے بی جے پی کی گاندھی خاندان کیمپین کو سخت دھچکا لگا ہے جو بی جے پی کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا۔لیکن جب کسی تخت نشیں کو اپنے خدا ہونے کا یقین ہو جاتا ہے تو وہ یوں ہی غلط فیصلے لیتا ہے۔ نریندر مودی کو بھی اپنی حکمرانی پر خدائی کا گمان ہونے لگا تھا۔ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ جو چاہیں کریں، عوام ان کو ووٹ ڈالے گی۔ لیکن ہندوستان کی تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمراں تاناشاہی پر اتر پڑتے ہیں تو اس ملک کی عوام ایسے حکمراں کے ہاتھوں سے تخت و تاج چھین لیتی ہے۔ پتہ نہیں سنہ 2024 میں لوک سبھا چناؤ کے کیا نتائج ہوں، لیکن فی الحال یہ آثار دکھائی دینے لگے ہیں کہ اگلا لوک سبھا چناؤ مودی نہیں بلکہ راہول گاندھی کا چناؤ ہوگا۔