مودی نے لوک سبھا انتخابات 2024 کے ہیرو کو تسلیم کرلیا

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

کانگریس کا انتخابی منشور فی الوقت موضوع بحث بنا ہوا ہے خاص طورپر وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے اہم قائدین کیلئے یہ انتخابی منشور درد سر بنا ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کا انتخابی منشور 2024 ء دراصل ایک ایسا پراڈکٹ ہے جس پر عام انتخابا ت 2019 ء سے اور اس کے بعد سے تیاری کی جارہی تھی ۔ کانگریس ایک ایسا انتخابی منشور متعارف کروانے کی کوشش کررہی تھی جو بی جے پی اور مودی کیلئے پریشانی اور عوام کے لئے راحت کا باعث بنے ۔ اس انتخابی منشور کی تیاری میں راہول گاندھی کی شروع کردہ بھارت جوڑویاترا کا اہم کردا رہا کیونکہ کنیا کماری تا کشمیر اپنی بھارت جوڑو یاترا کے دوران انھوں نے عوام کے جن مسائل کو قریب سے دیکھا ، بیروزگار نوجوانوں کی جو حالت زار دیکھی اور آسمان کو چھوتی مہنگائی سے متاثرہ خاندانوں کی کیفیت دیکھی ، ان تمام کو ملحوظ رکھتے ہوئے انتخابی منشور تیار کیا گیا ۔ اپنی تاریخی یاترا میں راہول گاندھی نے عام آدمی کے حالات سے اچھی طرح واقفیت حاصل کی اور پھر اس انتخابی منشور میں اودے پور کانکلیو کا بھی اہم کردار رہا ۔ اودے پور کانکلیو نے کانگریس پارٹی کے اہم لیڈروں کو ایک مقام پر جمع کیا ۔ تین دن تک جاری رہے اُس کانکلیو میں ملک کو درپیش مسائل پر مباحث ہوئے اور بڑی سنجیدگی سے ملک و قوم کو درپیش مسائل کے حل پر غور و خوض کیا گیا۔ کانکلیو میں اس بات پر بھی بات ہوئی کہ جن چیلنجز کا ملک کو سامنا ہے اس کے امکانی حل کا بھی احاطہ کیا گیا ۔ اس کے علاوہ رائے پور میں کل ہند کانگریس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا وہ اجلاس یقینا پارٹی کو بی جے پی کے خلاف ریاستی اور قومی سطح کا ایک جامع پلیٹ فارم فراہم کیا ۔ رائے پور اجلاس دیکھا جائے تو کانگریس کو بی جے پی کو چیلنج کرنے کے قابل بنایا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ نوسنکلپ اقتصادی پالیسی اُودے پور میں تیار کی گئی ۔ اس پالیسی کا کلیدی موضوع غریبوں کیلئے انتہائی اہم نکتہ رہا اور اس پر مباحث ہوئے ساتھ ہی رائے پور اجلاس میں اسے اپنایا گیا ۔ آپ کو بتادیں کہ کانگریس کا انتخابی منشور 15 اپریل کو جاری کیا گیا ۔ کل ہند کانگریس کمیٹی نے اسے NYAY PATRA کا نام دیا ۔ 46 صفحات پر مشتمل انتخابی منشور کامرکزی موضوع انصاف رہا اس لئے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران عوام کے ایک بڑے حصہ کو انصاف سے محروم کیا گیا۔ انتخابی منشور میں جس انصاف کی بات کی گئی اس میں سماجی انصاف ، نوجوانوں کے ساتھ انصاف ، خواتین کے ساتھ انصاف ، کسانوں کیلئے انصاف اور مزدوروں کیلئے انصاف شامل ہے ۔ چیف منسٹر تاملناڈو ایم کے اسٹالن نے کانگریس کے انتخابی منشور کو عام انتخابات 2024 ء کا ہیرو قرار دیا ۔ جیسے ہی کانگریس کا انتخابی منشور جاری کیا گیا اس کے بعد مسٹر مودی اور بی جے پی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا اور ابتداء میں میڈیا نے بھی ملک کی سب سے قدیم پارٹی ( کانگریس ) کے انتخابی منشور پر بہت کم توجہہ دی باالفاظ دیگر گودی میڈیا نے جان بوجھ کر کانگریس کے انتخابی منشور کو نظرانداز کردیا ۔ جیسے ہی انتخابی منشور کے ترجمہ شدہ ورژن ریاستوں میں پہنچے امیدواروں نے اس انتخابی منشور کو عوام کے نام کانگریس کے پیغام کے طورپر گاؤں گاؤں اور ٹاؤنس تک پہنچایا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کانگریس کا انتخابی منشور لوگوں کے درمیان موضوع بحث رہا ۔ ( انڈین ایکسپریس کی اشاعت مورخہ 28 اپریل 2024 ء میں میرا مضمون ’’مودی نے کانگریس کے انتخابی منشور کو ازسرنو تحریر کیا پڑھ سکتے ہیں ) ۔
5 اپریل کو کانگریس نے اپنا انتخابی منشور جاری کیا اس کے 9 دن بعد حکمراں بی جے پی کے انتخابی منشور کی اجرائی عمل میں لائی گئی ۔ کسی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا اور حد تو یہ ہے کہ خود مودی نے بھی اس کی تعریف و ستائش نہیں کی بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی کے انتخابی منشور کو لیکر مودی نے عدم اطمینانی کا مظاہرہ کیا ۔ ان کی ناراضگی اور برہمی کو دور کرنے کی خاطر بی جے پی کے ان قائدین نے جن کی نگرانی میں پارٹی کا انتخابی منشور جاری کیا گیا تھا انتخابی منشور کا عنوان ’’مودی کی گیارنٹی ‘‘ رکھ دیا ۔ پھر اس کے سات دن بعد 21 اپریل کو 102 پارلیمانی حلقوں میں رائے دہی کا انعقاد عمل میں آیا جس کے بعد انٹلیجنس بظاہر بی جے پی کیلئے بری خبریں لے کر آئی یعنی انٹلیجنس کی رپورٹس میں بظاہر یہ کہا گیا کہ ان 102 پارلیمانی حلقوں میں بی جے پی کا مظاہرہ اطمینان بخش نہیں رہا جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ رائے دہندے جنھوں نے کانگریس اور کے حلیفوں کے حق میں ووٹ دیا تھا ، دراصل انھوں نے کانگریس کے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کے حق میں ووٹ دیا ۔ مودی کو اندازہ ہوگیا کہ کانگریس کا انتخابی منشور بی جے پی کے انتخابی منشور پر بھاری پڑ گیا اور پھر مودی نے 21 اپریل کو ایک طرح سے گیر تبدیل کیا اور بکواس شروع کردی ، بی جے پی نے اپنے تمام لیڈروں اور ارکان کیلئے جو اسکرپٹ تیار کی اس سے شائد جھوٹ ، دروغ گوئی اور پروپگنڈہ کے لئے بدنام نازی گوئیلس کو بھی فخر ہوا ہوگا کیونکہ اس نے دنیا کو یہ فارمولہ دیا تھا کہ جھوٹ اس قدر زیادہ بولو کہ سچ بھی جھوٹ نظر آئے اور جھوٹ سچ دکھائی دے ۔ بی جے پی 10 برسوں سے جس طرح جھوٹ و دروغ گوئی کے سہارے اپنا اقتدار برقرار رکھے ہوئے ہے ان میں سے کچھ جھوٹ ہم آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔
بی جے پی کی پہلی جھوٹ : کانگریس کا انتخابی منشور مسلم لیگ کی چھاپ ہے ۔
سچائی : اگر دیکھا جائے تو کانگریس کے 45 صفحات پر مشتمل انتخابی منشور میں لفظ ’’مسلم ‘‘ کہیں نہیں آیا جبکہ اقلیتوں کا مذہبی و لسانی اقلیتوں کے طورپر پر حوالہ دیا گیا ۔ انتخابی منشور میں اقلیتوں سے متعدد وعدے کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملک کی مذہبی و لسانی اقلیتوں کو دستور ہند میں انسانی و شہری حقوق عطا کئے گئے ۔ کانگریس ان حقوق کے تحفظ کا عہد کرتی ہے ۔ کانگریس کے انتخابی منشور میں درج فہرست پسماندہ طبقات و قبائل یعنی ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سیز کے بار بار حوالے دیئے گئے تاہم کسی مذہبی کمیونٹی کا حوالہ نہیں دیا گیا ۔
بی جے پی کا دوسرا جھوٹ : اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وہ شرعی قوانین متعارف کروائے گی ۔
سچائی : کانگریس کے انتخابی منشور میں واضح طورپر کہا گیا کہ ہم پرسنل لاء میں اصلاحات کی حوصلہ افزائی کریں گے اور اس طرح کے اصلاحات متعلقہ برادریوں کی شراکت اور ان کی رضامندی سے لانا ضروری ہے ۔
بی جے پی کا تیسرا جھوٹ : کانگریس کا انتخابی منشور مارکسٹ اور ماؤسٹ کے اقتصادی نظریات کی وکالت کرتا ہے ۔
سچائی : معاشی پالیسیوں کے بارے میں دس صفحات دیئے گئے ہیں جس میں پارٹی کی معاشی پالیسیوں سے متعلق تعارف پیش کیا گیاہے ۔ انتخابی منشور میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کانگریس کی اقتصادی پارلیسی کوئی نئی نہیں ہے برسوں سے اور اپنے دور اقتدار میں پارٹی نے اُسی اقتصادی پالیسی پر عمل کیا۔ 1991 ء میں جبکہ ساری دنیا معاشی انحطاط کا شکار تھی کانگریس نے فراخدلانہ معاشی پالیسی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا اور ملک کو کھلی ، آزادانہ اور مسابقتی معیشت کی سمت آگے بڑھایا جس سے دولت پیدا کرنے میں حکومت کو زبردست کامیابی ملی اور ملک نے کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت کی معاشی اصلاحات کے ثمر حاصل کئے ۔ ہندوستان میں نئے کاروبار وسعت اختیار کئے گئے ، نئے صنعت کاروں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اس سے متوسط طبقہ کو بے شمار مواقع حاصل ہوئے ، لاکھوں کی تعداد میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اہم اختراعی کام سامنے آئے ۔ اکسپورٹس میں اضافہ ہوا اس طرح کانگریس حکومت کی معاشی پالیسی کے نتیجہ میں لاکھوں کی تعداد میں غریبوں کو غربت سے باہر نکالا گیا ۔
بی جے پی کا جھوٹ : اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وہ ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سیز کے تحفظات ختم کردے گی ۔
سچائی : کانگریس کے انتخابی منشور میں واضح طورپر کہا گیا کہ کانگریس اس بات کی گیارنٹی دے گی کہ وہ ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سیز کیلئے تحفظات کی موجودہ 50 فیصد حد کو بڑھانے کیلئے ایک دستوری ترمیم منظور کرے گی ، معاشی طورپر کمزور یا پسماندہ آبادی کو ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں 10فیصد تحفظات فراہم کرے گی ، کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیاز نہیں برتا جائے گا اور کانگریس ایس سی ، ایس ٹی اور او بی سیز کیلئے مختص مخلوعہ جائیدادوں کو اقتدار کے اندرون سال پُر کرے گی ۔ بی جے پی کا ایک اور جھوٹ : کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وراثت ٹیکس نافذ کرے گی ۔
سچائی : کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں ٹیکس اور ٹیکس اصلاحات پر 12 نکاتی پروگرام پیش کیا ہے ، اُس نے ڈائرکٹ ٹیکس کوڈ مدون کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ 5 سال کیلئے مستحکم پرسنل انکم ٹیکس کی شرحیں Maintain کرنے متوسط اور چھوٹی صنعتوں اور رئیل کاروبار پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ جی ایس ٹی بھی کم کرنے کا کانگریس نے وعدہ کیا ۔ مودی نے جس طرح کانگریس کے انتخابی منشور کی تشہیر کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اس تعلق سے مسٹر اسٹالن کے دعوے کی تصدیق کردی کہ ’’کانگریس کاانتخابی منشور 2024 ء کا ہیرو ہے ‘‘۔