مودی پربی بی سی ڈاکیو منٹری کی اسکریننگ کے خلاف طلبہ کوجے این او ایڈمن کا ’مشورہ‘۔

,

   

ایک جاری کردہ بیان میں مذکورہ جے این یو انتظامیہ نے کہاکہ انتظامیہ سے کوئی پیشگی اجازت نہیں لی گئی ہے۔
مذکورہ جواہرلال نہرو یونیورسٹی(جے این یو) انتظامیہ نے اپنی طلبہ کو یونین کو ”مشورہ دیا“ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی پر متنازعہ بی بی سی دستاویزات کی اسکریننگ کو منسوخ کردی۔

مذکورہ دستاویزات”انڈیا دی مودی کوئسچین‘ کی 24جنوری 9بجے شام اسکریننگ جے این یو کیمپس میں عمل میں ائی۔ایک جاری کردہ بیان میں مذکورہ جے این یو انتظامیہ نے کہاکہ انتظامیہ سے کوئی پیشگی اجازت نہیں لی گئی ہے۔

مذکورے جے این یو انتظامیہ نے بیان میں کہا ہے کہ ”متعلقہ طلبہ/افراد کو سختی کے ساتھ انتباہ دیاجاتا ہے کہ وہ مجوزہ پروگرام کو فوری طور پر منسوخ کریں جس میں وہ ناکام ہونے کی صورت میں یونیوررسٹی کے قوانین کے مطابق سخت تادیبی کاروائی شروع کی جاسکتی ہے“۔

یونیورسٹی نے کہاکہ ”یہ اس بات پر زوردیتا ہے کہ اس طرح کی غیر مجازسرگرمی یونیورسٹی کیمپس کے امن و ہم آہنگی کو متاثر کرسکتی ہے“۔

سرکولر پر ردعمل پیش کرتے ہوئے جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کے صدر اشیی گھوش نے 2018کا ایک ٹوئٹ جو وزیراعظم نریندر نے کی پوسٹ کیاتھا اس کو شیئر کیاہے۔

اشیی نے ٹوئٹ کیاکہ ”میں سمجھتاہوں جے این یو انتظامیہ نے وزیراعظم کے پوسٹ کردہ ٹوئٹ کوچھوڑ دئے جو چند سال قبل کیاگیاتھا۔صرف یادواشت کے لئے۔ ہم نے ان الفظ کوسنجیدگی کے ساتھ لیاہے“۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم میں 2002کے گجرات فسادات کی جب نریندر مودی ریاست کے چیف منسٹر تھے کی مکمل تحقیقات اورغیرجاری شدہ دستاویزات کو پیش کیاگیا ہے۔

اسی طرح کا ایک واقعہ حیدرآباد میں بھی اس وقت پیش آیا جب یونیورسٹی آف حیدرآباد میں 21جنوری کے روز اس کی ایک خصوصی اسکریننگ کا اہتمام کیاگیاتھا۔ آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی نے یونیورسٹی انتظامیہ سے اس بات پرایک شکایت درج کرائی جس کے بعد تحقیقات کا آغازکیاگیاہے۔


مودی پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کیاہے؟۔
دو حصوں پر مشتمل نئے دستاویزی سیریز برائے بی بی سی (برٹش براڈ کاسنگ کارپوریشن) انڈیا دی مودی کوئسچین‘ میں 2002گجرات فسادات پر توجہہ دی گئی ہے جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہوگئے تھے بالخصوص مسلم کمیونٹی اوراس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی حکومت نے جو رول ادا کیاہے‘۔

دو حصوں پرمشتمل دستاویزی فلم جو صرف برطانیہ میں نشر ہوئی ہے مسلم کمیونٹی او ربھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ ساتھ ہندو دائیں بازوکی تنظیموں‘ وشواہندو پریشد(وی ایچ پی)اور راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کا پیش خیمہ ہے۔

دوحصوں کی سیریز کاپہلا حصہ ”پہلے کبھی نہیں دیکھے جانے“ یا”محدود“ دستاویزات کی تفصیلات کا انکشاف کرتا ہے۔ یہ وہ رپورٹس ہیں جو عوام میں کبھی شائع ہی نہیں ہوئے ہیں۔

اس میں کہاگیاہے کہ فسادات کے لئے ”مودی راست ذمہ دار ہیں“ جس میں لاکھوں مارے گئے اور کئی بے گھر ہوئے‘ بیشتر مسلمان تھے۔ اس میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ”تشدد کی سیاسی حوصلہ افزائی کی گئی تھی“ گاور اس کا مقصد ”ہندو علاقوں سے مسلمانوں کو صفایہ“ تھا۔

فسادات ”ریاستی حکومت کے ذریعہ استثنیٰ کے ماحول کے بغیر“ناممکن تھے۔بی بی سی بات کرتے ہوئے سابق خارجی سکریٹری جیک اسٹریو(2001-2006) نے کہاکہ وہ شخصی طور پر تحقیقات میں شامل تھے‘ جس کے پیش کردہ تفصیلات اورنتائج خطرناک تھے۔

اسٹریو نے بی بی سی کو بتایاکہ ”میں اس کے متعلق بہت پریشان تھا۔ میں نے بہت زیادہ ذاتی دلچسپی لی کیونکہ ہندوستان ایک اہم ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے (برطانیہ)تعلقات ہیں۔

اور اس طرح ہمیں کس کو بہت احتیاط سے رکھنا پڑا ہے“۔ انہوں نے مزیدکہاکہ ”ہم نے جو کیاوہ ایک انکوئری قائم کرنا تھااور ایک ٹیم کو گجرات جانا تھااور خودمعلوم کیاتھا کہ ہوا کیاہے۔ اور انہوں نے بہت ہی تفصیلی رپورٹ تیار کی ہے“۔