مودی کی تانا شاہی نہیں چلے گی نہیں چلے گی

   

روش کمار
آج کل دہلی میں مودی تیری غنڈہ گردی نہیں چلے گی نہیں چلے گی۔ مودی تیری تانا شاہی نہیں چلے گی نہیں چلے گی کے نعرے گونج رہے ہیں اور جب سے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے چیف منسٹر دہلی اروند کجر یوال کو گرفتار کیا ہے تب سے ان نعروں کی شدت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے قائدین اور کارکن اپنے لیڈر کی گرفتاری کیخلاف زبردست احتجاج کر رہے ہیں اور پولیس بھی ان کے خلاف کارروائیوں سے گریز بھی نہیں کر رہی ہے ۔ گھوٹالہ ایک ہی ہے ، دہلی کی شراب پالیسی کا ۔ جس ساؤتھ گروپ کے حوالے سے 100 کروڑ کی رشوت دینے کے الزامات ہیں اور جس میں اروند کجریوال کو گرفتار کیا گیا ہے ، اس معاملہ میں ان کے پہلے سے یعنی 15 مارچ کو گرفتار کے کویتا کو 9 اپریل تک تہاڑ جیل بھیج دیا گیا ہے ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ عدالت میں ای ڈی نے کہا کہ انہیں اور حراست میں لے کر پوچھ تاچھ کی ضرورت نہیں ہے ۔ کویتا کے وکیل اس بنیاد پر ضمانت مانگ رہے تھے کہ ان کے بیٹے کے بورڈ امتحانات ہیں۔ کویتا نے عدالت جانے کے وقت کہا کہ یہ معاملہ منی لانڈرنگ کا نہیں بلکہ سیاسی لانڈرنگ کا ہے۔ کویتا پر الزام عائد کرنے والا ایک ملزم بی جے پی میں شامل ہوگیا ہے۔ ایک کو بی جے پی سے ٹکٹ ملنے والا ہے اور ایک بی جے پی کو 50 کروڑ روپئے کا چندہ دے رہا ہے۔ اس معاملہ میں سرکاری گواہ بنائے گئے اربندو فارما کے ڈائرکٹر ہے پی شرت چندر ریڈی انہیں بیماری کے باعث ضمانت مل چکی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے سوربھ بھردواج نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پیٹھ درد کے نام پر دفتر سے چھٹی نہیں ملتی مگر اس مقدمہ میں ضمانت مل گئی ۔ اگر آپ ضمانت کے معاملوں میں پیٹھ درد کی میڈیکل رپورٹس کی تاریخ کا جائزہ لیں گے تو کئی دلچسپ معلومات آپ کو مل جائیں گی۔ جرمن کے بعد اب امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ اپوزیشن کے لیڈر اروند کجریوال کی گرفتاری پر نظر رکھ رہا ہے ۔ ہم چاہیں گے کہ اس کیس میں قانونی لوازمات کا خیال رکھا جائے ۔ اس سے پہلے جرمن وزارت خارجہ نے ایسا تبصرہ کیا جس پر حکومت ہند نے جرمنی سفارتخانہ کے ڈپٹی چیف آف مشن کو طلب کر کے انتباہ دے دیا کہ داخلی معاملات میں مداخلت نہ کریں ۔ اروند کجریوال کیوں گرفتار ہوئے اس بات کو صرف ایک شخص اچھی طرح سے آپ کو سمجھا سکتا ہے اور وہ ہے نوین جندال ، نوین کے پیچھے بھی ای ڈی پڑی رہی حالانکہ وہ گرفتار نہیں ہوئے لیکن اب بی جے پی میں آگئے ہیں اور کروکشیتر سے بی جے پی کے امیدوار بنادیئے گئے ہیں۔ اجیت پوار سے لے کر تمام ایسے قائدین ہیں جن کی مثالیں دے کر آپ کو سمجھایا جاسکتا ہے کہ اروند کجریوال اور منیش سیسوڈیہ کیوں جیل میں ہیں لیکن نوین جندال کا معاملہ ذرا تازہ ہے ۔ ہم اس ویڈیو میں اس کی بھی بات کریں گے کہ گوا کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی نے کتنا مال خرچ کیا اور الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دوران کتنا پیسہ ضبط کیا تھا ، عاپ کے کارکنوں نے وزیراعظم کی قیامگاہ کا گھیراؤ کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ تاہم وہ ایسا نہیں کرسکے۔ عاپ کے قائدین و کارکن پر لاٹھی چارج کیا گیا، انہیں زد و کوب کیا گیا اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ ان لوگوں کو وزیراعظم کی قیامگاہ کے قریب پہنچنے نہیں دیا گیا ۔ ای ڈی کی جانب سے اپنے لیڈر کی گرفتاری کے خلاف اس قسم کا احتجاج کسی دوسری سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے نہیں کیا ۔ عام آدمی پارٹی لوک کلیان مارگ تک نہ پہنچ سکے ۔ اس کے لئے کئی مقامات پر میٹرو کے گیٹ بندکردیئے گئے ۔ پٹیل چوک پر پولیس کا بھاری بندوبست کیا گیا تھا ۔ دہلی پولیس نے اڈوائزری جاری کر کے تغلق روڈ ، صفدر جنگ روڈ اور کمال اتاترک مارگ پر کسی بھی گاڑی کے رکنے یا پارک کرنے پر روگ لگادی ۔ ان تمام سڑکوں کا تعلق اس لوک کلیان مارگ سے ہے جہاں عام آدمی پارٹی کا احتجاجی مظاہرہ ہونا تھا۔
دوسری طرف بی جے پی نے اروند کجریوال کے استعفیٰ کی مانگ کی ہے اور اس موضوع پر گودی میڈیا میں بحث جاری ہے لیکن گودی میڈیا میں نوین جندال کو لے کر بی جے پی سے کوئی سوال پوچھا جارہا ہے یا نہیں؟ ای ڈی کے سیاسی استعمال کو لے کر کوئی بحث ہورہی ہے یا نہیں ؟ آپ اس کا جواب جانتے ہیں۔ آپ سے یہی گزارش ہے کہ بی جے پی میں شامل ہونے والے لیڈروں پر نظر رکھئے ، یہ بھی دیکھئے کہ ان پر کتنے سنگین الزامات عائد کئے گئے تھے کیونکہ یہ کام سنجیدگی سے کرنا ہے ۔ آج سارا ہندوستان جان چکا ہے کہ انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ اپوزیشن جماعتوں کیلئے جیل فیکٹری بن گئی ہے ۔ خاص طور پر ان لیڈروں کیلئے جو کسی بھی طرح سے بی جے پی کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔ ای ڈی، انٹری گیٹ بن گئی ہے ، ان کیلئے جنہیں ڈرا دھمکاکر یا لالچ دے کر بی جے پی میں لایا جاتا ہے۔ جس شخص کو خود نریندر مودی نے 2014 کے انتخابات میں کوئلہ چور کہا تھا ، آج اسی شخص کو لے کر ہر یانہ کے چیف منسٹر کروکشیتر پہنچے۔ ای ڈی جس کے خلاف چارج شیٹ دائر کی ہو ، کئی بار چھاپے ماری ہو ، وہ بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے آرہا ہے تو آپ ذرا اس کا خیرمقدم دیکھئے۔ نعروں میں جئے شری رام کے نعروں کو بھی آپ سن سکتے ہیں۔ چیف منسٹر ہریانہ کچھ دن پہلے تک اس کروکشیتر سے رکن پارلیمنٹ تھے، اب چیف منسٹر ہیں۔ سیٹ خالی ہوئی ہے تو کانگریس سے نوین جندال کو لایا گیا ہے ۔ دس سال سے وزیراعظم نریندر مودی کا بی جے پی اور ملک کی سیاست میں جلوہ ہے مگر دس سال میں اس پارٹی کے پاس اپنا کوئی امیدوار نہیں ، حالت یہ ہے کہ اس آدمی کو لاکر ٹکٹ دیا گیا جسے بی جے پی 2013 سے ہی چور کہتی رہی۔ بی جے پی قائدین نے اس کے بارے میں ماضی میں کہا تھا کہ کوئلہ اسکام میں ایک کانگریسی ایم پی نوین جندال اور کانگریس کے سابق وزیر داسری نارائن راؤ پر ایف آئی آر درج ہونے سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ کانگریس نے کوئلہ اسکام میں جم کر ملک کو لوٹا ہے اور اس لئے کوئلہ اسکام کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن آج جو یہ دھاوے کئے گئے ہیں ، وہ سی بی آئی تحقیقات کا حکم گزشتہ فروری میں دیا گیا تھا ۔ بی جے پی کی شکایت پر اس کے 15 ماہ بعد دھاوے پڑے ہیں۔ ایسے میں سی بی آئی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور اس لئے بی جے پی چاہے گی کہ سی بی آئی Money Trial کر ے کیونکہ 50 لاکھ کروڑ مالیتی کوئلہ کمپنیوں کو مفت میں دیا ایسا حکومت بتاتی ہے اور اس لئے ہم مانگ کرتے ہیں کہ اس کا منی ٹرائل جب تک نہیں ہوتا کہ کس نے کس کو کتنا پیسہ دیا ہے اور وہ پیسہ کہاں چھپایا ہے تب تک اس گھٹالہ کا سچ باہر نہیں آئے گا ۔ بہرحال جس شخص کے خلاف اس قدر طویل عرصہ سے ای ڈی پڑی ہو اور وہ فرد اچانک ایک صبح بی جے پی میں آجائے اور اسے ٹکٹ بھی مل جائے اس پر حیرانی صرف ان ہی کو نہیں ہوگی جنہوں نے قسم کھالی ہے کہ اس ملک کے اداروں یا ایجنسیوں کے استعمال سے اس خوبصورت جمہوری صورتحال کو پوری طرح برباد کردینا ہے ۔ 24 مارچ کو نوین جندال شام ساڑھے 8 بجے ٹوئیٹ کرتے ہیں کہ میں نے دس سال کانگریس پارٹی کے کروکشیتر رکن پارلیمنٹ کی حیثیت انجام دی ہے ۔ میں کانگریس لیڈر اور سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج میں کانگریس کی ابتدائی رکنیت سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ اس ٹوئیٹ کو صدر کانگریس ملکارجن کھرگے کے ٹوئیٹر ہینڈل سے جوڑ دیتے ہیں یعنی لگتا یہ کہ پارٹی لیڈر کو اس سلسلہ میں جانکاری ٹوئیٹ سے ہی دی گئی ہوگی ۔ اس ٹوئیٹ کے ٹھیک دس منٹ بعد بی جے پی کے ٹوئیٹر ہینڈل پر لائیو پریس کانفرنس شروع ہوجاتی ہے جہاں نوین جندال بی جے پی میں شامل ہوتے ہیں۔ کیا ایسا ہوا ہوگا کہ جندال بی جے پی کے دروازے پر پہنچ کر صدر کانگریس کو ٹوئیٹ کر رہے ہیں ، ٹیاگ کر رہے ہیں۔ جس کاروبار کو لے کر ان کے پیچھے اتنی ایجنسیاں لگائی گئیں اس کی تعریف ہونے لگتی ہے کہ بہت بڑے صنعت کار ہیں۔ کچھ دیر بعد انہیں ٹکٹ ملنے کا اعلان ہوتا ہے۔ رات 12 بجے سے پہلے ہی ٹی وی چیانلوں پر نوین جندال کی بائٹ چلنے لگ جاتی ہے کہ ٹکٹ مل گیا ہے اور میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اگلے دن جندال نے ہریانہ کے چیف منسٹر نائب سنگھ ہنی اور سابق چیف منسٹر منوہر لال کتھر کے ساتھ اپنی تصاویر پوسٹ کردیں۔ واضح ہے کہ نوین جندال 2004 سے 2009 اور 2009 سے 2014 تک کانگریس کے ایم پی رہے یعنی دو مرتبہ وہ کروکشیتر سے کانگریس کی نمائندگی کرتے رہے ۔ وہ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر رہے ۔ اگر دوسری جماعتیں کچھ کر یں تو سمجھ میں آتا ہے مگر قوم پرستی، مذہب اور رام راجیہ کی سیاست کرنے والی پارٹی سیاست کی گندگی کو سمٹ کر گلے لگالے تو اسے کیسے سمجھا جائے ۔ بی جے پی نے ایسا کیوں کیا ؟ کیا اس لئے کہ عوام ہوش میں نہیں ہیں ۔ اس نے غلط کو گلے لگانے کا فیصلہ لے لیا ہے ۔ گودی میڈیا عوام کو یہ یاد بھی نہیں دلائے گا ۔ خبروں سے یہ سب سوال غائب ہوجائیں گے اور آپ کہتے ہیں کہ کوئی گھوٹالہ نہیں ہوا، یہی سب سے بڑا گھوٹالہ ہے کہ جس پر گھوٹالہ کا الزام عائد کیا گیا جس پر 2015 سے 2022 تک ای ڈی چھاپے مارتی رہی، اس سے چندا بھی لیا گیا اور اسے اپنی پارٹی میں شامل کرلیا گیا اور ٹکٹ بھی دے دیا گیا ۔ بی جے پی نے کوئلہ گھوٹالہ کو لے کر 2024 کے انتخابات میں رائے دہندوں کو یاد دلانا چاہتی ہے اور اس گھوٹالہ کے ایک ملزم نوین جندال کو اپنی پارٹی میں لے آئی ہے۔ اب تو کرناٹک کے گالی جناردھن ریڈی کو بھی بی جے پی میں شامل کرلیا گیا ۔ ان پر سی بی آئی کے 9 مقدمات درج ہیں جس کے خلاف 5 سال میں غیر قانونی کاموں کے اتنے معاملے درج ہوں ، اسے امیت شاہ بی جے پی میں کیوں لے رہے ہیں؟ جناردھن ریڈی کے معاملہ کا تعلق سیدھے سیدھے کوئلہ گھوٹالہ اور ای ڈی سے نہیں ہے ۔ بہرحال حقیقی ملزمین کو بی جے پی میں شامل کیاجارہا ہے اور دوسری طرف اروند کجریوال سے کہا جارہا ہے کہ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کریں۔