مودی ۔ امیت شاہ کی حکمت عملی

   

ڈی کے سنگھ
گزشتہ چار ہفتوں یعنی ایک ماہ کے دوران حکمراں بی جے پی میں ہم نے کئی تقررات کئی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا اور یہ بھی دیکھا گیا کہ ان تقررات اور تبدیلیوں کے ذریعہ نریندر مودی اور امیت شاہ نے 2024ء کے عام انتخابات سے 17، 18 ماہ قبل ہی پارٹی میں استحکام اور پارٹی کو تنظیمی طور پر مضبوط بنانے کا احساس پیدا کیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی کی قیادت (مودی ۔ امیت شاہ) نے عام انتخابات 2024ء کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ بی جے پی کے موجودہ صدر جے پی نڈا دوسری میعاد کیلئے بھی پارٹی صدر رہیں گے (اس بات کے پورے پورے امکانات ہیں) حالیہ عرصہ کے دوران بی جے پی پارلیمانی پارٹی بورڈ، سنٹرل الیکشن کمیٹی کی تشکیل جدید عمل میں آئی۔ کئی ریاستوں میں پارٹی کے نئے صدور کے تقررات کئے گئے اور ساتھ ہی ریاستوں میں پارٹی کے نئے نگران بھی مقرر کردیئے گئے۔ ان تمام اقدامات سے یہی اشارے ملتے ہیں کہ جے پی نڈا، دوسری میعاد کیلئے بھی پارٹی کے صدر رہیں گے جہاں تک نڈا کی میعاد کا سوال ہے، ان کی تین سالہ میعاد جو 20 جنوری 2020ء کو شروع ہوئی ہے، اس کے ختم ہونے چار ماہ سے کم عرصہ باقی ہے، ایسے میں مودی و شاہ نئے پارٹی صدر کا انتخاب کرنے کے خواہاں ہوتے تو اس طرح سے بڑے پیمانے پر تنظیمی تبدیلیاں نہیں کرتے کیونکہ اس طرح کا کوئی بھی قدم پارٹی کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی مودی اور امیت شاہ حیران کن فیصلے کرنے کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ دونوں کے تئیں نڈا کی وفاداری پر کوئی اُنگلی نہیں اٹھا سکتا ۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے مودی اور امیت شاہ کے پاس ان کی جگہ کسی اور کو صدر بنانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
مودی اور امیت شاہ نے اگست کے تیسرے ہفتہ سے تنظیمی تبدیلیاں کی ہیں اور اسے ایسے لیڈروں میں اہمیت کا احساس پیدا کرنا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی نے انہیں نظرانداز کردیا۔ نئے لیڈروں کو تنظیمی کاموں میں شامل کرنا اور نئے رہنماؤں کو وعدہ کے مطابق پارٹی میں آگے بڑھانا بھی تنظیمی تبدیلیوں کا ایک مقصد ہے۔ گزشتہ ہفتہ چند لیڈروں کو ریاستوں کا نگران مقرر کیا گیا ہے۔ ان کے نام دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ سمپت پاترا جنہیں نومبر 2020ء میں منی پور کا نگران بنایا گیا، اس مرتبہ انہیں بڑی ترقی دے کر شمال مشرقی ریاستوں کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ وہ عملاً چیف منسٹر آسام ہیمنتا بسوا سرما کا کردار ادا کریں گے۔ منی پوراسمبلی میں ایسے بل بوتے پر اکثریت حاصل کرنے کے نتیجہمیں ہی سمپت پاترا کو یہ انعام دیا گیا ہے۔ بہار سے تعلق رکھنے والے نوجوان لیڈر آر کے سنہا کو شمال مشرقی ریاستوں کا جوائنٹ کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ وہ سابق رکن پارلیمنٹ آر کے سنہا بانی سکیورٹی سرویس پروائیڈر SIS (انڈیا) کے بانی کے فرزند ہیں۔ آر کے سنہا نے گزشتہ سال اکتوبر میں لالو پرساد یادو اور رابڑی دیوی سے ان کی قیام گاہ پہنچ کر ملاقات کی تھی جس سے بہار کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی تھی۔ ونو تاؤڑے جنرل سیکریٹری انچارج ہریانہ کو بہار کی ذمہ داری دی گئی یہ کافی اہم ذمہ داری ہے کیونکہ حالیہ عرصہ کے دوران بہار میں بی جے پی کے حلیف نتیش کمار نے اس سے ناطہ توڑ کر لالو یادو کی آر جے ڈی سے رشتہ جوڑ لیا۔ لالو ۔ نتیش کے اتحاد کو لے کر بی جے پی کافی پریشان ہے۔ اسے ملک کی سیاست میں بہار کی اہمیت کا اچھی طرح اندازہ ہے جہاں سے 40 ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں۔ تاؤڑے دراصل مہاراشٹرا سے تعلق رکھنے والے ایک مراہٹہ لیڈر ہیں۔ ان کی اور سابق چیف منسٹر دیویندر فڈنویس کی آپس میں نہیں بنتی۔ اس کے باوجود فڈنویس کی حکومت میں تاؤڑے کو ایک اہم وزارت سونپی گئی تھی، جس میں اسکول اعلیٰ تعلیم اور تیکنیکی تعلیم، طبی تعلیم اور تہذیبی اُمور کے قلمدان بھی شامل تھے۔ فڈنویس ہی نے ان سے طبی تعلیم کا قلمدان واپس لے لیا تھا۔ 2019ء کے اسمبلی انتخابات میں تاؤڑے کو پارٹی ٹکٹ دینے سے بھی انکار کردیا گیا تھا۔ نومبر 2020ء میں انہیں بی جے پی کا قومی جنرل سیکریٹری اور ہریانہ کا نگران بنایا گیا اور اب بہار کی اہم ترین ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ایک اور بی جے پی لیڈر چندر شیکھر باون کولے کو بھی جنہیں 2019ء اسمبلی انتخابات میں ٹکٹ دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ گزشتہ ماہ مہاراشٹرا بی جے پی کا صدر مقرر کیا گیا۔ دوسری طرف وجئے روپانی جنہیں گجرات کے عہدۂ چیف منسٹری سے ہٹایا گیا، انہیں اب پنجاب کا انچارج بنایا گیا۔ مہیش شرما کو جنہیں 2019ء مرکزی کابینہ سے نکال دیا گیا تھا۔ تریپورہ کا انچارج مقرر کیا گیا ہے۔
ایک بی جے پی لیڈر کا کہنا ہے کہ پارٹی میں کی گئی تنظیمی تبدیلیوں سے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘‘ کو عملی شکل دینے کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پارٹی میں کسی کو نظرانداز نہیں کیا گیا ہے۔ جلد یا بدیر سب کو کوئی نہ کوئی ذمہ داری دی جائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی۔ امیت شاہ نے ان تبدیلیوں کیلئے وفاداری کا پیمانہ مقرر کر رکھا تھا جس کے نتیجہ میں نتن گڈکری، شیوراج سنگھ چوہان کو نظرانداز کردیا گیا۔ پرکاش جاؤڈیکر کو گزشتہ سال مرکزی کابینہ سے ہٹا دیا کیا گیا تھا۔ اب کیرالا کا انچارج بناتے ہوئے ان کی بازآبادکاری کی گئی، لیکن روی شنکر پرساد، سدانند گوڑا، ہریش وردھن اور دیگر کو ابھی تک کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی۔ بہرحال مودی اور شاہ نے یہ پیغام دیا ہے کہ جو لوگ وفادار رہیں گے، انہیں جلد یا تاخیر سے اہم ذمہ داریاں دی جائیں گی۔