مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی بصیرت

   

سید نصیرالدین قادری
مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی بصیرت مولانا آزاد ‘بے مثال خطیب جن کی طاقت ، لسانی اور قوت کلام نے جنگ آزادی میں عوام کے دلوں کو گرمایا اور ان میں آزادی حاصل کرنے کی تڑپ او ر لگن پیدا کی جن کی سلگتی تحریروں نے عوام اور خواص دونوں پر جادوئی اثرات ڈالے اور جنگ آزادی میں قلوب کو مسخر کرکے لوگوں کے دلوں میں آزادی کیلئے مر مٹنے کا جذبہ پیدا کیا ان کی پر اثر اور شورش انگیز تحریروں نے انگریزوں کو مجبور کیا کہ وہ ان کے رسالوں ‘ الہلال اور البلاغ پر سخت پابندیاں لگائیںاور بالآخر اشاعت کو مسدود کرنے پر مجبورکردیں۔ انھیں ان کے سیاسی دور میں کیٔ بار پابند سلاسل کیا گیا‘ زبان بندیاں کی گیٔیں‘ شہر بدر کیا گیا‘ لوح و قلم کی متاع ان سے چھین لی گئی‘ لیکن مولانا آزاد نے اپنا سفر جاری رکھا‘ یہاں تک کہ آزادی کا سورج طلوع ہوا‘ انگریزوں کو بوریا بستر سمیت رخصت ہونا پڑا اور ملک میں آزادی اور استقلال کی شمع روشن ہویٔ۔ لیکن‘ انگریزوں نے جاتے وقت ہندوستا ن کو ایک عظیم کشاکش اور کشمکش سے دوچار کردیا۔ اپنی رخصت سے پہلے ‘ انگریزوں نے جو اپنی ایمانداری اور اخلاقی بلندی کے ڈھول پیٹا کرتے تھے ‘ نہایت نا انصافی سے کام لے کر‘ بجائے اس کے کہ انھیں اقتدار واپس کرتے جن سے انھوں نے چھینا تھا (یعنی مسلمان) ‘ ملک کی آبادی میں اکثریت اور اقلیت کا شوشہ چھوڑ کر معاشرہ میں مذہبی بنیادوں پر دراڑ ڈال دی جو بالآخر ملک کی تقسیم کاپیش خیمہ ثابت ہوئی ۔تقسیم ملک کے سانحہ نے اس خوشی کو گہنا دیا اور تاریخ انسانی کے عظیم ترین المیوں میں سے ایک کو جنم دیا‘ جس کے نتیجہ میں بہت بڑے پیمانہ پر ترک وطن اور ہجرت کا فقید المثال واقعہ پیش آیا‘ اور اس دوران انسانی خون ناحق جس بڑے پیمانہ پر بہایا گیا ‘ وہ تاریخ انسانی کا ایک خونچکان باب ہے۔ اس موقعہ پر اُمت ِمسلمہ ‘ قوم اور وطن کی بنیادوں پر دو دھڑوں میں بٹ گئی ۔مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا آزاد ‘ اس خیال کے حامی اور مبلّغ تھے کہ قوم ‘ وطن سے ہے‘ مذہب سے نہیں۔ علّامہ اقبالؔ اور دیگر کئی اکابر کا اعتقاد تھا کہ قومیت‘ وطنیت کی نہیںبلکہ مذہب کی بنیاد پر ہے۔ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور اس کے ماننے والے تمام دنیا کے شہری ہیں‘ لیکن پہلے وہ مسلمان ہیں‘ بعد میں بنگالی‘ دکنی ‘ پنجابی‘ ملاباری وغیرہ وغیرہ۔اس تقسیم نے مسلمانوں کی علحدہ سیاسی قوت کے مرکز پر زور دیا اور نتیجہ میں مسلم لیگ قائم ہوئی ۔ اس کے قائدین نے صاف اعلان کردیا کہ ہندوستان میں مسلمان ‘ برابری کا حقدار ہے اور اس کے سیاسی‘ سماجی ‘ معاشی‘ معاشرتی اور مذہبی حقوق کو ہرگز نہیں دبایا جا سکتا۔ تقسیم ہند کے لیٔے کون ذمہ دار ہے ‘ یہ بحث نہایت طول اختیار کر گیٔی اور بالآخر ‘ اکثریتی جماعت (کانگریس)کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں مسلم لیگ نے مسلمانوں کیلئے ایک علحدہ وطن کا مطالبہ نہایت شد و مد سے رکھا۔ قرارداد لاہور کے بعد مسلم لیک ’’ڈایٔرکٹ ایکشن‘‘ پر اتر آئی‘ اور بالا ٓخر ‘ تقسیم ہند کا کربناک فیصلہ ہوا‘ جو مولانا آزاد ‘ گاندھی جی اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی ہزار کوششوں کے باوجود عمل میں آیا۔ تقسیم ہند کے اصل ذمہ داروں کے تعلق سے دونوں فریقوں نے ہزارہا تقاریر کی ہیں‘ اور ہزاروں مضامین کے علاوہ سینکڑوں کتابیں بھی مختلف زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ اس خصوص میں ‘ راقم الحروف کو وہ سلسلہ وار مضامین یاد آتے ہیں جو تعمیر ملّت کے ترجمان ‘ ہفتہ وار ’’شعور‘‘ میں مرحوم عبدالرحیم قریشی نے’’پاکستان کس نے بنایا‘‘ کے عنوان سے قلمبند کئے تھے۔ مستند تاریخی حوالوں ‘ اقتباسات اور واقعات پر مبنی یہ مضامین اس خصوص میں حرف آخرکی حیثیت رکھتے ہیں(کاش اسے کوئی ادارہ یا خود ’’تعمیر ملّت‘‘ کتابی شکل میں شائع کرے‘ یہ ایک نہایت قیمتی دستاویز ہے)۔مولانا آزاد ، تقسیم ہند کے چشم دید گواہ تھے۔ انھوں نے جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں سے اپنے زور خطابت کا کرشمہ دکھایا اور ان ہزاروں مسلمانوں کو جو اپنے خاندان کیساتھ ہجرت کیلئے ‘ پرانی دلّی کے ریلوے اسٹیشن کی طرف جوق در جوق رواں دواں تھے‘ ترک وطن کا ارادہ منسوخ کر کے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جانے پر آمادہ کیا‘ اس طرح ‘ لوگوں نے (عارضی طور پر سہی)ہندوستان میں رہنا قبول کر لیا‘ اور ممکن ہے کہ دلی کی ان بستیوں میں انہی لوگوں کی اولاد آج بھی آباد ہو جنہوں نے مولانا آزادکے مشورہ پر اپنا رخت سفر کھول دیا اور یہیں رہ بس گیٔے۔ لمحہ فکریہ ‘ یہ ہے کہ آیا ‘ مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت ‘ ان کی دور اندیشی اور دور بینی ‘ صرف بنگالیوں کے بارے میں پیشگوئی تک محدود رہی۔ ایک بالغ نظر سیاسی رہنما‘ ایک مفکر‘ ایک مؤرخ ‘ ایک ماہر نفسیات اور اقوام ہند کا نہایت گہر ا مطالعہ رکھنے والی اس عبقری شخصیت کی دور بینی اور دور اندیشی نے اس مستقبل کا کیوں ادراک نہیں کیا جہاں ایک ایسی قوم کو ‘ جو صدیوں سے محکوم چلی آتی تھی ‘بلا شرکت غیرے‘ تعداد کے بل بوتے پر اقتدار پر قابض ہو جانے کا زرین موقع ہاتھ آنے پر ‘ اور حال تک حاکم چلی آنے والی قوم کو اپنا محکوم ‘ دست نگر پانے کے بعد‘ اپنے ناکردہ گناہوں کی بناء پر کٹہرے میں لا کھڑا کرنے کا کوئی موقع نہ چھوڑے گی۔ جہاں ‘ ایک صدی سے بھی کم عرصہ کے دوران ‘ مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دینے کی باقاعدہ سازشیں رچی جائیں گی ‘ اور جہاں ان کی جان و مال کو کھلم کھلا لوٹا جائے گا اور عزت و عفت کو سر بازرا پامال کیا جائے گا۔ آزادی کے بعد سے مخالف مسلم فسادات کی تعداد دس ہزار سے بھی بڑھ چکی ہے ‘ اور بالخصوص ‘ شمالی ہندوستان میں ‘ مسلمانوں کا با عزت جینا روز بروز دشوارسے دشوار تر ہو تا جا رہا ہے۔مولانا آزاد نے بطور مؤرخ او ر تاریخ ہندوستان پر گہری نظر رکھنے کے باعث ‘ اس بات کا لازمی طور پر ادراک اور احساس کیا ہوگاکہ وہ قوم جو خود کو ہندو کہتی ہے‘ اس کی اپنی تاریخ کتنی تاریک ہے جواپنے جیسے بنی نوع انسان پر ذات پات کا مصنوعی اور نہایت ظالمانہ نظام مسلط کرتے ہوئے ‘ ہزاروں سال سے اپنے سے کم رتبہ سمجھے جانے والے لوگوں پر وحشیانہ تشدد اور ظلم کو روا بلکہ جائز اور ثواب کا کام سمجھتی ہے۔ اگرچہ کہ یہ گروہ ‘ دعویٰ کرتا ہے واسو دیوا کٹمبکم (کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا) ‘ لیکن عملاٌ جو ہوتا ہے ‘ تاریخ کے ہزارہا صفحات میں تحریر ہوا ہے اور محفوظ ہے۔ اچھوتوں کو جو قوم انسان کا درجہ دینے تیار نہیں ہوئی‘ وہ ’’ملیچھ‘‘ یعنی مسلمانوں کو اپنے برابر کا رتبہ کیسے دینے تیار ہوگی ؟ ان کے نزدیک ایک حیوان (گائے) ‘ انسان سے بدرجہا افضل ہے ‘ چونکہ اس کے اندر بقول ان کے‘ ۳۳ کروڑ دیوی دیوتا بستے ہیں‘ اور مسلمان تو ان کے نزدیک کسی شمار اور قطار میں نہیں۔ مولانا نے ہندوستان کے دیگر مذاہب کا بھی یقینا بغور مطالعہ کیا ہوگا ‘ انھیں اس بات کا بدیہی طور پر علم ہوگا کہ جین مت اور بدھ مت کو جو دھرم برداشت کرنے پر تیار نہیں ہوا ‘ جو برہمنوں کی ذات پات اور چھوا چھوت کے خلاف تحریک کی شکل میں اٹھے تھے جس قوم کی پسندیدہ تفریح‘ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو تباہ و برباد کرنا رہی ہو‘ جس کے ظلم و ستم کا شکار ہوکر بالخصوص بدھ مت کے ماننے والے ‘ یا تو اپنے وہاروں میں مقید ہو کر رہ گئے یا پھر ہجرت کرکے دوردراز کے علاقوں میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور ہوئے ‘ نتیجہ یہ ہے کہ سری لنکا‘ کمبوڈیا ‘ میانمار(برما)‘ حتی کہ افغانستان تک میں بدھ مت کے ماننے والے جا بسے دستور ہند کے معمار سمجھے جانے والے ‘ ڈاکٹر امبیڈکر کے ساتھ جو ’’حسن سلوک‘‘ کم ذات ہونے کے الزام میں اس قوم کے اکابرین نے کیا تھا ‘ مولانا آزاد ‘ اس کے بذات خود شاہد رہے ہیں۔ ان تمام مشاہدات اور ثبوتوں کی موجودگی کے باوصف ‘ مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی ان آئندہ حالات کا اندازہ اور احاطہ کرنے سے کیوں قاصر رہی ‘ جس کو بنیاد بنا کر مسلم لیگ کی قیادت نے پیش گویٔ کردی تھی کہ ہندوستان کی اکثریتی قوم کے پاس سماجی مساوات اور برابری کا ادنیٰ تصور بھی نہیں ہے ‘ اور وہ اقتدا میں آجانے پر ‘ اپنے علاوہ تمام مذہبی گروہوںاور اقلیتوں ‘ بالخصوص مسلمانوں کو ہر قسم کے تشدد او ر ظلم و جبر کا نشانہ بنائے گی۔آیا یہ سوچنا غلط ہو گا کہ ‘ باوجود یکہ مولانا آزاد ان حالات بلکہ خطرات سے بخوبی آگاہ تھے لیکن سیاسی مجبوریوں کی بناء پر وہ اس انداز کی پیش گوئی ‘ جو انھوں نے مشرقی پاکستان کے بارے میں کی تھی ‘ ہندوستان کی اکثریتی قوم کے بارے میں نہ کر سکے ‘ نہ تو واضح طور پر ‘ نہ ہی ڈھکے چھپے انداز میں !مجھے اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ مولانا آزاد پر ‘ بطور سیاسی قایٔد ہونے کے ‘ یہ قدغن اور نظرنہ آنے والی پابندی یقینا عائد ہوگی کہ وہ کسی بھی موضوع پر ‘ اور بالخصوص ‘ اقلیتی معاملات اور موضوعات پر کھل کر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کر سکیں ‘ چونکہ وہ ’’قومی سطح‘‘ کے ان قایدین میں گنے جاتے تھے جن کا ان معاملات پر ‘ جو خالص مسلمانوں کے قومی معاملات سے متعلق ہو ‘ ان کے بارے میں رائے زنی کرنا‘ گویا ‘ بالواسطہ طور پر اس مکتب فکر کی تائید کرنا سمجھا جاتا ‘ جس کی عمر بھر انھوں نے مخالفت کی ‘ اور اس غرض کیلئے خود کو ’’کانگریس کا شو بوائے کہلوانا بھی منظور کر لیا !اس تمام کے باوجود ‘ جو بڑا سوال آج ابھر کر آیا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ آیا ‘ دلی اور اس سے ملحقہ دیگر علاقوں میں جو تباہی فرقہ پرستوں کے ہاتھوں ہویٔ ‘ اور جس کا سلسلہ تا حال جاری ہے(جنتر منتر پر علی الاعلان ’’ ملّوں کو کاٹو‘‘ کے نعرے بلند ہو رہے ہیں)‘ ا ن پر مولانا آزاد کا ردعمل کیا ہوتا ؟ آیا وہ اپنی ابتدائی رائے سے خود ہی اختلاف کرنے پر‘ اور اس بات کا اعتراف کرنے مجبور ہوتے کہ مستقبل کے ہندوستان میں رفتہ رفتہ ‘ ہندو فرقہ پرستوں کا غلبہ ہو جائے گا ‘ اوراقلیتی طبقات ‘ بالخصوص مسلمان ‘ فرقہ پرست طاقتوں کے نہ صرف نشانہ پر ہوں گے ‘ بلکہ ان کے رحم و کرم پر ہوں گے ‘ اور بحیثیت مسلمان ‘ ان کے دین و مذہب‘ ان کی سماجی و معاشرتی اقدار اور ان کی تہذیب و تمدن کو سخت خطرہ لاحق ہوجائے گا ‘(جو بعینہ آج ملک کی صورت حال ہے)