مو ت تجد یدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے

   

آہ ! حضرت اعظم المشائخ علیہ الرحمہ

ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی

صدر کل ہند جمعیت المشائخ حضرت علامہ قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری علیہ الرحمہ کا شمار ریاست تلنگانہ کی ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ جامع الکمالات شخصیت کی متحمل رہے۔ آپ کے اندر بے انتہاء خصوصیات مضمر رہے۔ مفسر قرآن، صاحب شریعت و طریقت، صاحب بصارت، صاحب نکات، صاحب واقف رموز و اسرار، بلندپایہ شاعر بھی رہے۔ آپ کی ایک خصوصیت یہ رہی کہ موسم چاہے کوئی بھی ہو، زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ روزنامہ سیاست کے مذہبی صفحہ بنام ’’انواراسلام‘‘ میں آپ کے درس مثنوی تقریبا چارسو (۴۰۰) اقساط پے درپے شایع ہوئے ہیں۔ اور یہ درس مثنوی دلوں کو موہ لینا والا رہتا۔ تاحیات آپ اپنے خطابات سے لوگوں کے دلوں کو روشن و منور کرتے رہے۔ آپ نے کئی ایک علمی موضوعات پر کتابیں تصنیف کیئے۔ قراء ت سبعہ عشرہ کے علم و فن میں بڑے ماہر تھے۔ باطل و فرقہ پرست گفتگو کرنے والوں کو بڑی عمدگی و سلیقگی سے جواب دیتے۔ اور ایسا کلام فرماتے کہ سامنے والا ساکت ہوجاتا۔ صحافت میں ممتاز رہے۔ آپ کا شروع کردہ ماہنامہ مجلہ ’’صوفی اعظم‘‘ جسکے آپ چیف ایڈیٹر بھی رہے، انتہائی حساس موضوعات پر مشتمل مضامین سوالات و جوابات شایع فرماتے۔ آپ کا تعلق درسگاہ و خانقاہ دونوں سے بڑا مضبوط رہا۔ مریدین و معتقدین آپ کے انداز بیان، اخلاق اور کردار سے بہت متاثر ہوجاتے۔ آپ کے اندر بے حساب خوبیاں موجود رہیں۔

آپ کا وصال ۴؍ذوالقعدۃ الحرام ۱۴۴۱؁ھ۔ م ۲۶؍ جون ۲۰۲۰ء؁ شب جمعہ کو ہوا۔ نمازجنازہ بروز جمعہ بعد اشراق مسجد ایوان صوفی اعظم شاہین نگر حیدرآباد میں پڑھائی گئی اور آپ کو اسی ایوان صوفی اعظم میں سپرد لحد کیا گیا۔اﷲ تعالی حضرت قبلہ کی کامل مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند کرے۔ آمین
موت کی خبر کسی بھی انسان سے متعلق ہو، وہ عزیز و اقارب کے لیے رُلانے دھلانے والی ہی ہوتی ہے اور جانے والا جب گھنی چھاؤں والا ہو، جس کی مجلسیں اکسیرگر اور صحبتیں کیمیا اثر ہوں، اس کی موت کی خبر جس قدر وحشت اثر ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ کچھ وہی لگاسکتے ہیں، جس کے کوئی قریبی عزیز کا داغ مفارقت تازہ ہو۔
موت ایک ایسی حقیقت ہے جسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں،”مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ“۔ جمعہ کی شب آل نبی اولاد علی گل گلستان زھرا جگر گوشہ پیران پیر غوث الاعظم دستگیر رہبر شریعت پیرطریقت مفسر قرآن محدث وفقیہ حضرت العلامہ مولانا الحاج قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری حسنی حسینی رحمۃ اللہ علیہ دار فانی سے دارباقی کی طرف کوچ کر گئے اور بزم رفتگاں کا ایک حصہ بن گئے ۔یہ خبر منٹوں میں،دنیا کے گوشے گوشے میں، جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر شخص نے بڑے افسوس کے ساتھ اس خبر کو پڑھا اور سنا اور دوسروں کو بتایا۔حضرت ہمارے دور کی عظیم ترین شخصیت تھے، ایسی شخصیت، جس کی تعمیر برسوں میں اور بڑی مشکل سے ہوتی ہے، ایسی بلند و بالا ہستی جس کے دیدار کے لیے نرگس کو ہزاروں سال اپنی بے نوری پر رونا پڑتا ہے۔آپ کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور ایسی باغ وبہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمونا مشکل ہے ۔ ہر فن میں الله تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ آپ ہر فن کی معلومات کا خزانہ تھے۔آپ کو الله تعالیٰ نے جو خطابت کا ملکہ عطا فرمایا تھا، وہ شاذ ونادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے ۔
ابھی مولانا کے سانحہٴ وفات کا زخم تازہ ہی تھا کہ آپ کے دوسرے فرزند اکبر بھی اس دارفانی سے کوچ کرگئے ۔ ہر جانے والا اپنے پیچھے ایسا مہیب خلا چھوڑ کر جارہا ہے کہ اس کے پُر ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ جہاں تک علم کے حروف ونقوش، کتابی معلومات اور فن کا تعلق ہے اس کے کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں، لیکن دین کا ٹھیٹھ مزاج ومذاق اور تقویٰ وطہارت، سادگی وقناعت او رتواضع وللہیت کا البیلا انداز، جو کتابوں سے نہیں، بلکہ صرف اور صرف بزرگوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے، دھیرے دھیرے ختم ہو رہا ہے۔ مولانا ایسی ہی شخصیت تھے کہ جس کے شجر سایہ دار تلے پہنچ کر ہرکس وناکس راحت وسکون پاسکتا تھا۔

مولانا کی پوری زندگی دین کی خدمت میں گذری۔ ان کی زندگی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ دین اور دینی اداروں سے محبت کی جائے۔ علمائے حق کے زیر سایہ رہ کر ان کی اتباع واطاعت میں اپنی جان بھی پیش کرنے سے پیچھے نہ رہا جائے۔ حق چاہے کتنا بھی کڑوا کیوں نہ ہو اس کو بیان کرنے سے ہرگز پیچھے نہ ہٹنا چاہیے۔ الله تعالیٰ آپ کے احباب ورشتے داروں کو صبر جمیل نصیب فرمائے۔ آپ کو اپنی آغوش رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی