مہاراشٹرا اور اوڈیشہ میں کیا ہورہا ہے ؟

   

امجد خان
وزیراعظم نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی اور این ڈی اے یہ دعوے کررہے ہیں کہ اس بار این ڈی اے کو 400 سے زائد پارلیمانی حلقوں پر کامیابی حاصل ہوگی اور تیسری مرتبہ مودی ہی عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہوں گے۔ وزیراعظم نریندر مودی سے لیکر ان کے بااعتماد رفیق وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی قائدین اپوزیشن اتحاد ” INDIA” کو اہمیت گھٹاکر پیش کررہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ کو 400 نشستوں پر کامیابی کی امید ہے تو پھر آپ ( بی جے پی / وزیراعظم / امیت شاہ ) آخر این ڈی اے کے سابق حلیفوں سے دوبارہ ربط کیوں پیدا کررہے ہیں ؟ چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں سے ربط پیدا کرتے ہوئے آخر کیوں ان جماعتوں سے اتحاد کرنے میں پہل کررہے ہیں؟ ۔ ہم بات کرتے ہیں مہاراشٹرا کی جہاں بی جے پی شیوسینا (یکناتھ شنڈے گروپ ) کے حکمراں اتحاد مہاپوتی کی ۔ مجوزہ پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر مہاپوتی میں شامل جماعتیں زیادہ سے زیادہ حلقوں میں اپنے امیدوار میدان میں اُتارنے ڈٹ گئی ہیں ۔ شیوسینا ( شنڈے گروپ ) کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ 22 پارلیمانی حلقے دینے کا مطالبہ کررہی ہے ، اجیت پوار کی زیرقیادت این سی پی نے بتایا جاتا ہے کہ کم از کم 10 حلقوں پر اپنا دعوی پیش کیا ہے جبکہ بگ برادر سمجھے جانے والی بی جے پی کم از کم 30 نشستوں پر اپنے امیدوار مقابلہ میں اتارنے کی خواہاں ہے ۔ بارہ متی پارلیمانی حلقہ 6 اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے جس میں انداپور حلقہ بھی شامل ہے اس حلقہ کے این سی پی ورکروں کے بارے میں بی جے پی لیڈر ہرش وردھن پاٹل کی شکایت ہے کہ وہ انداپور میں منعقدہ ریالیوں میں ان کے خلاف قابل اعتراض تقاریر کررہے ہیں گندی زبان استعمال کررہے ہیں ۔ مذکورہ بی جے پی قائدین کی مجبوری و بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے دیویندر فڈنویس کو لکھے گئے ایک مکتوب میں اپنی سیفٹی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے اس نے یہاں تک کہہ دیا ہیکہ اجیت پوار کے لوگ اسے انتخابات کے دوران حلقہ میں گھومنے پھرنے کے خلاف خطرناک نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ ملک کی ایسی 5 ریاستیں ہیں جہاں 30 سے زائد پارلیمانی حلقے ہیں ان میں مہاراشٹرا بھی شامل ہے جہاں 48 پارلیمانی حلقے ہیں۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی چاہتی ہے کہ 34-35 حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑا کرے اس بات کی بھی اطلاعات ہیں کہ امیت شاہ شیوسینا ( یکناتھ شنڈے ) اور این سی پی ( اجیت پوار ) گروپوں کو یہ کہکر ڈراسکتے ہیں کہ ان کی مقبولیت گرچکی ہے کیونکہ دونوں جماعتوں نے اپنی بانی پارٹیوں سے راہیں جدا کر کے اپنا علحدہ وجود منظرعام پر لایا اور بی جے پی سے اتحاد کیا ایسے میں عوام انہیں سبق سکھاسکتے ہیں۔ شنڈے اور اجیت پوار اس بات کو لیکر بضد ہیں کہ جس طرح گزشتہ انتخابات میں ان کی غیرمنقسم پارٹیوں کے امیدواروں کی تعداد تھی اسی حساب سے اس مرتبہ بھی انہیں نشستیں الاٹ کی جائیں لیکن ریاست کی صورتحال سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی نوشتہ دیوار اچھی طرح پڑھ لی ہے کہ شیوسینا اور این سی پی سے غداری نے یکناتھ شنڈے اور اجیت پوار کی شبیہہ عوام میں مسخ کر کے رکھ دی ہے اور عوام ان لوگوں پر بہت زیادہ برہم ہیں اس لئے بی جے پی مہاراشٹرا میں زیادہ سے زیادہ حلقوں پر اپنے امیدوار اتارنے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ دیویندر فڈنویس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے میڈیا کو قیاس آرائیوں سے گریز کرنے اور حلیف جماعت میں غلط فہمیاں پیدا نہ کرنے کا مشورہ دیا بلکہ خبردار کیا ۔ مہاراشٹرا میں اقتدار حاصل کرنے بی جے پی کو ہمیشہ سے بڑی دلچسپی رہی اس نے دو مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ دونوں مرتبہ اس نے انتخابات کے ذریعہ نہیں بلکہ توڑ جوڑ کے ذریعہ ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کی جان توڑ کوششیں کرلی لیکن دونوں مرتبہ اسے شرمساری کا سامنا کرنا پڑا ایک مرتبہ تو بی جے پی این سی پی کو توڑنے میں کامیاب رہی اجیت پوار نے فڈنویس کے ساتھ ڈپٹی چیف منسٹر کا حلف بھی لیا اور پھر چند گھنٹوں میں ہی شردپوار کی این سی پی میں واپس چلے گئے لیکن دوسری مرتبہ بی جے پی کو اس وقت کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی جب یکناتھ شنڈے کئی ایک ارکان اسمبلی کو لیکر گوہاٹی چلے گئے اور پھر مہاراشٹرا میں شیوسینا کانگریس اور این سی پی پر مشتمل اتحادی حکومت زوال سے دوچار ہوگئی لیکن اس کے بعد یہ کہا جارہا تھا کہ ممبئی میونسپل الیکشن منعقد کروائے جائیں گے ایسا نہیں ہوسکا ۔ دوسری طرف اوڈیشہ میں بھی بی جے پی حکمراں جماعت بیجو جنتادل کے ساتھ دوبارہ اتحاد کرنے کی جان توڑ کوشش کررہی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں نوین پٹنائیک کے ساتھ شہ نشین شیئر کیا ان سے خوشگوار انداز میں بات چیت کی ۔ اس بارے میں انگریزی کے موقر روزنامہ ’’ دی ہندو ‘‘ کے مطابق بی جے پی اور بی جے ڈی کے قائدین نے لوک سبھا انتخابات کیلئے امکانی اتحاد اور نشستوں پر مفاہمت پر بات چیت کا آغاز کیا ہے لیکن دونوں پارٹیوں میں سے کسی نے بھی اس بارے میں کوئی واضح بیان نہیں دیا ہے ایک بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ اوڈیشہ میں بی جے پی قائدین BJD سے اتحاد کے بغیر تنہا مقابلہ کرنے کے خواہاں ہیں لیکن اس معاملہ میں پارٹی کی مرکزی قیادت ہی قطعی فیصلہ کرسکتی ہے ۔ اگر بی جے پی ۔ بیجو جنتادل سے اتحاد کرتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ 15 سال بعد دوبارہ اتحاد کررہے ہیں اور کانگریس واحد اپوزیشن جماعت ہوگی۔ ریاست کے 21 پارلیمانی حلقہ ہیں جس میں سے 8 پر بی جے پی کا قبضہ ہے ۔ عام انتخابات کے ساتھ ریاست میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد بھی عمل میں آنے والا ہے ۔