میانمار میں اب بھی6,00,000روہنگیائی ”سنگین نسل کشی کے خطرہ“ پر ہیں۔ اقوام متحدہ

,

   

میانمار کے لئے حقائق سے آگاہی مشن انسانی حقوق کونسل نے تیار کیاہے‘ پچھلے سال 2017میں فوجی اپریشن ”نسل کشی“ قراردیاتھا اور اعلی جنرنلوں کے خلاف کاروائی کی مانگ کی تھی

اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کارکنوں نے پیر کے روز کہا ہے کہ روہنگیائی مسلمانوں کو میانمار میں ”سنگین نسل کشی“ کے خطرات اب بھی لاحق ہیں‘ متنبہ کیاکہ پہلے ہی دس لاکھ کے قریب ملک کی فوج کی جانب سے کھیدڑے گئے ہیں جس کو واپسی ”ناممکن“ ہے۔

میانمار کے لئے حقائق سے آگاہی مشن انسانی حقوق کونسل نے تیار کیاہے‘ پچھلے سال 2017میں فوجی اپریشن ”نسل کشی“ قراردیاتھا

اور اعلی جنرنلوں کے خلاف کاروائی کی مانگ کی تھی جس میں آرمی چیف مین اونگ ہالینگ بھی شامل ہے۔گاؤں کو جلانے‘ قتل کرنے عصمت ریزی اور اذیت پہنچانے کی وجہہ سے کچھ 7,40,000روہنگیائی سرحد کے پار بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپو ں میں زندگی بسر کررہے ہیں‘

جہاں پر سابق میں ان کے ساتھ پیش ائے ظلم وستم کی داستان سے پہلے ہی وہ دم توڑ چکے ہیں۔مگر حیران کردینے والی رپورٹ میں اقوام متحدہ کی مذکورہ ٹیم کا کہناہے کہ

6,00,000روہنگیائی اب بھی میانمار کی ریاست راکھین میں نہایت پریشان کن اور”افسردہ“ حالات میں رہ رہے ہیں۔

جنیورا میں منگل کے روزپیش کردہ میانمار پر اپنے قطعی رپورٹ میں تحقیقات کرنے والوں نے کہاکہ”میانمار نسل کشی کی منشاء کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور اب بھی روہنگیائی سنگین نسلی کشی کے دہانے پر ہیں“۔

اس میں کہاگیا ہے کہ مذکورہ ملک”ظلم وزیادتیاں انجام دینے سے انکارکررہا ہے‘ شواہد مٹانے کی بات سے بھی انکار کیاجارہا ہے‘ صفائی دینے اور بااثر تحقیقات کرانے سے بھی انکار کیاجارہا ہے‘

جہاں سے روہنگیوں کو بیدخل کیاگیا ہے وہاں کی اراضیات کو اپنے قبضے میں لینے کاکام کیاجارہا ہے“۔

وہاں پر روہنگیائی ”غیرانسانی“ زندگی گذاررہے ہیں اور رپورٹ میں کہاگیاہے کہ 40,000سے زائد گھر لڑائی میں تباہ کردئے گئے ہیں۔

میانمار کے فوجی ترجمان زاؤ مین ٹون نے ٹیم کی انکشاف کو مسترد کیا اور اس کو ”یکطرفہ“ قراردیا۔

انہوں نے کہاکہ ”یکطرفہ الزامات لگانے کے بجائے انہیں زمینی حقیقت کا جائزہ لینا چاہئے تھا“