حقائق کی جانچ کرنے والوں نے اس بات کاانکشاف کیاہے کہ دونوں متوفی اور ملزم کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے۔
میسور۔شہر میں ایک انجینئرنگ طالب علم کے قتل کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش بعض نٹیزنس اور ایک صحافی کررہے ہیں۔ اس تمام کی شروعات اس وقت ہوئی جب شام میں شائع ہونیوالے نیوز پیپر‘ اسٹار آف میسور‘ نے 21سالہ انجینئرنگ کی ایک طالب علم اپورا شٹی کے ہوسور روڈ پر ایک پرائیوٹ ہوٹل میں قتل کی خبر دی جہاں پر وہ اپنے بوائی فرینڈ عاشق کے ساتھ قیام کئے ہوئے تھیں۔
جیسے ہی سوشیل میڈیاپر یہ خبر وائر ل ہوئی‘ بعض نٹیزنس نے اس کو ایک فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ مذکورہ کالج کی لڑکی اور لڑکے کی تصوئیر شیئر کرتے ہوئے سدرشن ٹی وی کے صحافی ساگر کمار نے لکھا کہ ”میرے والا عبدال ایسا نہیں ہے“۔
ٹوئٹر سے اس ٹوئٹ کو بعد میں ہٹادیاگیاہے۔ ایک اور ٹوئٹر صارف ریتوراتھوڑ نے لکھا کہ ”ایک بات میری سمجھ سے باہر ہے‘ کیسے ایک تعلیم یافتہ‘ خوبصورت دیکھائی دینے والے ہندو لڑکی‘ ایک بدصورت‘ بے روزگار ایم لڑکوں کے عشق میں پڑجاتی ہیں؟۔
ڈاکٹر سبزی والے کے عشق میں ایم بی لڑکی کی اٹووالے سے شادی۔جنوب سے تازہ معاملہ۔ ہندو لڑکی اوربھینسہ دیکھائی دینے والے میم لڑکی کو دیکھیں‘ یہ کیاہے؟“۔
ایک سیاسی جانکار نے لکھاکہ ”میرا عبدال ایسا نہیں‘ کچھ نہیں ہوتے لیکن زیادہ تر ایسے ہوتے ہیں“۔
حقائق کی جانچ
تاہم حقائق کی جانچ کرنے والے الٹ نیوز نے انکشاف کیا ہے کہ مذکورہ ملزم عاشق نہیں آشیش ہے۔
د یو راجا پولیس اسٹیشن نے اسبات کی تصدیق کی ہے کہ دونو ں کاتعلق ہندو کمیونٹی سے ہے۔
حقائق کی جانچ کرنے والوں نے متوفی کے والد سے بھی بات کی ہے جس کی تصدیق کے مطابق ملزم کا تعلق بھی ہندو کمیونٹی سے ہے۔